Topics

چھت کا پلاسٹر گرنا


سمیع اللہ، پشاور۔ آبائی گھر کے کچن میں بیوی بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی کھانا کھارہا ہوں ۔ جہاں ہم بیٹھے ہیں اس کے دوسری طرف چھت سے کافی تعداد میں پلاسٹر گرتا ہے جس سے ہم سب ڈرجاتے ہیں۔

 تعبیر : آدمی دوسرے جہان سے اس دنیا میں آتا ہے تو اسے اس بات کا علم ہی نہیں ہو تا کہ آدمی کا گھر بھی ہو نا چاہئے ۔ماحول میں دنیا داری کے رنگ میں جب رنگین ہو تا ہے اس کے بعد دنیا داری اس طر ح ذہن میں ہجوم کر لیتی ہے کہ پچھلی زندگی یکسر بھول جا تا ہے ۔ ماحول کی انسپائریشن کو جب آدمی قبول کر لیتا ہے تو ماضی بھول جا تا ہے ۔ پیدا ئش سے پہلے وہ جہاں تھا وہاں اللہ تعالیٰ ہر ضرورت پو ری کر تے تھے ۔

وہاں سے منتقلی کے بعد ہا تھوں پیروں میں توانائی نہیں تھی ۔ بیٹھنا تو بعد کی بات ہے کروٹ بھی نہیں لے سکتا تھا۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ماں کے پیٹ میںرزق فراہم ہوا۔ پیدا ئش کے بعد بہترین غذا پاک صاف خوب صورت رنگ خوش ذائقہ دودھ کے روپ میں غذا فراہم کی گئی ۔ ہاتھ پیروں میں توانائی آئی تو تمام غذائی ضروریات اللہ تعالیٰ نے فراہم کیں ۔ بچہ جوان ہوا تو ایک سے دو ہوئے اور دو سے چار ،چار سے آٹھ ، آٹھ سے سولہ بنتے چلے گئے ،جتنے بھی اعداد بڑھے اسی مناسبت سے غذا فراہم ہو تی رہی ۔ بڑھاپا آگیا یعنی انحطاط کا وہ زمانہ جس میں آدمی مشقت نہیں کر تا یا مشقت کے قابل ہی نہیں رہتا تب بھی اللہ تعالیٰ وسائل عطا فرماتے ہیں ۔ دنیاو ی وسائل سے بے نیازی کا علم دوبارہ آجا تا ہے اور آدمی کا گھر یہی بن جا تا ہے جہاں بظاہر وسائل نہیں ہوتے ۔

اب خلاصہ ٔ کلام پڑھئے— آدمی دنیا میں موجود نہیں تھا لیکن موجود تھا ،جہاں بھی موجود تھا وہاں سے اس دنیا میں آیا ۔ کس طر ح آیا اس کی تفصیلات اوپر آپ پڑھ چکے ہیں ۔جب ایک دن کا بچہ دوسرے دن میں داخل ہوا پہلا دن معلوم نہیں کہاں چلا گیا ۔ غیب و شہود کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ دس دن چھپ گئے تو گیارھواں دن ظاہر ہوا ۔ گیارہ دن چھپ گئے تو بارھواں دن ظاہر ہوا ۔ اگر ہم اس کو موت و حیات سے تعبیر کر یں تو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق قرآن پاک میں ہے ،

''ہم زندگی کو موت سے نکالتے ہیں ''

موت سے زندگی ظاہر ہو تی ہے اور ظاہر موت میں تبدیل ہو جا تا ہے ۔ وضاحت اس کی یہ ہے کہ بچہ ایک دن کا ہوتا ہے، ایک دن انتقال کر جا تا ہے تو دوسرا دن ظاہر ہوتا ہے ۔ دوسرا دن انتقال کر تا ہے تو تیسرا دن ظاہر ہو تا ہے ۔اس طر ح 60 سال کا وقفہ زیر بحث آتا ہے۔ بالآخر بچہ جہاں سے آیا تھا جوان ہوتا ہے بوڑھا ہوتا ہے یعنی بچپن جوانی میں تبدیل ہو جا تا ہے اور جوانی بڑھاپے کا روپ دھار لیتی ہے بالآخر آدمی مرجاتا ہے ۔ یہ وہ کہانی بلکہ حقیقت ہے جس کی طرف سے آدمی آنکھیں بند کئے ہو ئے ہے ۔

بھائی آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو وسائل دئیے ہیں اس کے مطابق دھوپ رکنے اور بارش سے بچنے کا انتظام کیجئے ۔ جب آنکھیں بند ہو ں گی نا تو 80گز کا گھر یادو کنال، چار کنال کا گھر آرام کے لئے آپ کو میسر نہیں ہو گا۔ کون سے گھر میں آپ رہیں گے— آپ سوچئے اور بتائیے۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب یہ زمین گھر پیسے بچے سب اس بات کی کوشش کر یں گے کہ جلدی سے جلدی ابا خاک نشین ہو جائیں ۔

’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘ (نومبر 2018ء)

Topics


Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02

خواجہ شمس الدین عظیمی


"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور  ماہنامہ  قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل  ہے"


غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.