Topics
محمد وسیم، بلدیہ ٹاؤن۔دیکھا
کہ ایک بزرگ گاڑی میں بیٹھے، میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا، چند سال کی بیٹی گود میں
ہے۔بیٹی بزرگ سے ہاتھ ملاتی ہے۔ گاڑی ایک جگہ رکتی ہے اور ہم گاڑی سے باہر آجاتے ہیں۔
بزرگ گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہیں مگر مجھ سے دروازہ بند نہیں ہوتا۔ ڈرائیور صاحب
کہتے ہیں آپ جائیے، میں دروازہ بند کردوںگا۔ ایک لمبے قد کے صاحب آتے ہیں، اپنا
نام بتاکر مجھ سے گلے ملتے ہیں۔
تعبیر:
خواب دیکھنے والا ذہنی انتشار میں مبتلا ہے۔ انتشار میں جو عکس نمایاں ہیں وہ یہ ہیں۔
١) عدم تحفظ کا احساس، ٢)دنیاوی تقاضوں کا ہجوم، ٣)یقین کے مقابلہ میں شکوک و
شبہات اور ٤) وسائل کی احتیاج ذہن میں گردش کرتی رہتی ہے۔ اس طرح کے عمل کو لاشعور
نے ناپسند کیا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ آدمی پوری جدوجہد اور کوشش کرے&نتائج اللہ تعالیٰ کے اوپر چھوڑدے اس لیے
کہ زندگی پردہ میں بندہے۔ نہیں جانتے کہ پیدا ہونے سے پہلے کس عالم میں تھے۔ پیدائش
کے بعد کتنے دن مہینہ، سال اور گھنٹے منٹ سیکنڈ ہمیں دنیا میں رہنا ہے۔ رہنا بھی
ہے یا جس طرح کہیں سے آئے ہیں اسی طرح کہیں چلے جانا ہے۔
بزرگ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنا،
گود میں بچی کا ہونا، بچی کا بزرگ سے ہاتھ ملانا ایسی تمثیل ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ
خواب دیکھنے والے صاحب ہوائی قلعے بناتے ہیں۔ وسائل کے حصول کے لیے فی الواقع جتنی
کوشش ہونی چاہیے وہ پوری نہیں ہوتی۔
تمام
عمر سہاروں پر آس رہتی ہے
تمام
عمر سہارے فریب دیتے ہیں
Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.