Topics

آئینہ دیکھنے سے دانت سرخ ہو جاتے ہیں

راشد محمود، مانسہرہ ہزارہ۔ مورخہ 14 اپریل ۶۹ ء کی شب خواب میں دیکھاکہ ہمارے گھر بہت سے مہمان آئے ہیں ان مہمانوں میں بچے،جوان ،بوڑھے سب ہیں۔ ان میں مہمانوں کی ایک خصوصیت یہ دیکھنے میں آئی کہ بچوں، بوڑھوں اور جو انوں نے ایک ہی رنگ کا لباس پہنا ہوا ہے، شام کے وقت کھانا کھا لینے کے بعد مہمانوں میں سے ایک بزرگ نے مجھے اپنے قریب کر کے راز و ولرانہ انداز میں مجھ سے پوچھا ، کیا تم نے کھانا کھا لیا؟ میں نے کہا ابھی بھوک نہیں ہے۔ ان میں سے ایک صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ تمہارے دانت توبہت سفید اور چمکدار ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ دانتوں کی جگہ چھوٹے چھوٹے برف کے ٹکڑے رکھ دیئے گئے ہوں۔ یہ الفاظ سن کر میں آئینہ کے سامنے آگیا۔ دیکھا کہ واقعی دانت سچے موتیوں کی طرح چمک رہے ہیں۔ میں واپس پلٹا اور ان صاحب سے جاکر کہا آپ درست فرماتے ہیں میرے دانت واقعی برف کی طرح سفید ہیں۔ اس ہی خوشی میں دوبارہ آئینہ میں اپنا منہ دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سفید رنگ کے دانت بلکل سرخ ہو گئے۔ عرض ہے کہ تعبیر کے ساتھ تجزیہ میں یہ بھی بتائیں کہ انہونی بات کیوں واقع ہوئی ۔ سرخ دانتوں کے بارے میں نہ کبھی دیکھا اور نہ کبھی سنا ہے ۔

تعبیر: یہ خواب کسی نا صحیح اور غلط عادت کی طرف اشارہ ہے خواب کے مظاہریہ ظاہر کرتے ہیں کہ انتہا پسندی کی جوروش اختیار کی گئی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ یہ غلطی معاشی کاموں میں بھی دخیل ہے جس کے نتائج خلاف توقع رونما ہو رہے ہیں۔ خواب کے اندر یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ قریب اور دور کے افراد کو جو مقام ملنا چاہیٔے وہ نہیں دیا جارہا۔

تجزیہ: سن رسیدہ مہمانوں اور بچوں کو ایک ہی رنگ کے لباس میں دیکھنا اس بات کی علامت ہے کہ زندگی کو وسائل اور متنوع معا ملات کو ایک ہی سطح پر سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالاں کہ الگ الگ شعبوں کے لئے روش فکر الگ الگ ہونی چاہئے ۔ روش سے طبیعت میں انتہائی پسندی کا رجحان ظاہر ہوتا ہے ۔سفید دانتوں کا سرخ ہو جانا کسی غلط اور نامناسب عادت کا تمثل ہے۔ دانت سرخ کس طرح اور کیوں ہوگئے تو جواب میں عرض ہے کہ حقیقت میں نہ تغیر ہوتا ہے اور نہ تعطل ان چیزوں کو حقیقی نہیں کہا جا سکتا۔ جس میں ردوبدل ہوتا رہتا ہو۔ انسان کے سوچنے کی بنیاد تغیر اور تبدل پر ہے ۔ یہ بنیاد دیکھنے، چھونے، چکنے، سونگھنے وغیرہ ان حواس پر منحصر ہے جن کو حواسِ خمسہ کہا جاتا ہے جس طرح حو اس میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ سوچنے ،سمجھنے میں بھی ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ زندگی کو جاننے اورحواس کو سمجھنے کا اصول مثالیت پر، تمثیلات پر، اشارات پر اور علامتوں پر قائم ہے۔ نتائج ہمیشہ کیفیات پر مرتب ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر مثالیت ہمیں ایک طرزسے دوسری طرز کی طرف ، ایک روپ سے دوسرے روپ کی طرف، ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل کرتی رہتی ہے۔ حالات کی ان منتقلیوں کا نام علم رکھا گیا ہے۔ انسان ان منتقلیوں کو الفاظ کا روپ دے کر دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے جبکہ اشیا ء کے بارے میں ہم ہر نام سے متعلق اپنے ذہن میں ایک تصور محفوظ رکھتے ہیں۔

مثلاً: قلم سنتے ہی ہم جان لیتے ہیں کہ جس کو اسلاف استعمال کرتے آئے ہیں ہم استعمال کر رہے ہیں اور ہماری نسلیں استعمال کریں گی ۔ یہ مسمر یزم کا وہی چکر ہے جو عامل معمول کے درمیان ہوا کرتا ہے۔جیسے ہی عامل کچھ کہتا ہے معمول فوراً سمجھ جاتاہے اور وہی جواب دیتا ہے جو عامل نے معین کیا ہوا ہے ۔ عامل معمول کی کہانی بھی سن لیجئے ۔

تقریباً سو اشارے معین کر لئے جاتے ہیں کسی مجمع میں عامل معمول سے سوال کرتا ہے کہ ان بھائی صاحب کی جیب میں کیا ہے تم بتا سکتے ہو ؟ اب یہ بات پہلے سے معین کر لی جاتی ہے کہ اشارہ کا جواب یہ ہے کہ ان بھائی کی جیب میں رومال ہے ۔ عامل پھر کہتا ہے ادھر آو۔ دیکھو ان صاحب کے ہاتھ میں ایک روپیہ ہے اس کا سن بتاؤ۔ معمول خاموش رہتا ہے عامل کہتا ہے کیا تم یہ سن بھی نہیں بتا سکتے ۔ غور سے دیکھو اور بتاؤ کہ یہ سن کونسا سن ہے ؟ اس اشارہ میں یہ سن سے مراد ہے کہ سن موجود سن ہے ۔ عامل پھر اشارہ کرتا ہے کیا تم یہ سن بھی نہیں بتا سکتے یعنی موجود سن ۔معمول فوراً کہہ دیتا ہے کہ یہ سن انہتر ۶۹ کا ہے ۔ اس طرح عامل کہتا ہے کہ چودہ قدم آگے آؤ ۔ چار قدم پیچھے ہٹو مطلب یہ ہے کہ چودہ میں سے چار کو نفی کر و کیا تم بتا سکتے ہو کہ ان صاحب کے ہاتھ میں کتنے پیسے ہیں ۔معمول کہے گا دس ہیں ۔ اصل میں مسمریزم کا یہ سارا کھیل اشارت پر مشتمل ہے ۔ اسی طرح ہماری زندگی کا ہر عمل اشارات ، تمثیلات اور علامات کی بنیاد پر قائم ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری زندگی کے اشارات الفاظ کے بڑے بڑے ذخیروں کا مجموعہ ہے ۔

خواب میں بالکل یہی طرز تحت الشعور اختیار کرتا ہے ۔ دانت سرخ نہیں ہوتے لیکن جب ’’انا‘‘ یہ بتائے کہ دانت سرخ ہوگئے ہیں تو انا کے اس اشارہ میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ زندگی کے معمولات میں کوئی غلط کام اور ناصحیح معمول داخل ہوگیا ہے ۔

مشورہ : انتہا پسندی کی روش کو ترک کرکے صحیح اور متعدل روش کو اپنا یا جائے تو بہتر نتائج برآمد ہوں گے ۔

’’روحانی ڈائجسٹ ‘‘ (دسمبر 82 ء)

Topics


Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02

خواجہ شمس الدین عظیمی


"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور  ماہنامہ  قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل  ہے"


غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.