Topics
صائمہ سلیم،
کراچی: عدالت میں ایک بزرگ کو دیکھا جو گہری سوچ میں ہیں۔ جج صاحب گواہی مانگتے
ہیں ۔ بزرگ کسی خاتون کا نام لیتے ہیں تو وہ آکر دوسری خاتون کی بے گناہی پر شہادت
دیتی ہیں۔ جج صاحب ان خاتون کو غور سے دیکھنے کے بعد فائل بند کردیتے ہیں۔
تعبیر: آپ کو روحانی علوم کا ذوق ہے اور
صلاحیت بھی اللہ نے عطا کی ہے۔ اگر آپ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی طرح روحانیت
کو پڑھیں اور مشق کریں تو شمار بے رنگ مخلوق میں ہوگا۔ بے رنگ مخلوق سے مراد کالا
،نیلا، پیلا اور سفید نہیں بلکہ صبغۃ اللہ ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے،
’’کہو، اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ
ہوگا؟ ‘‘ (البقرۃ: ۱۳۸)
دنیاوی نقطہ ٔنظر
سے جب ہم دیکھتے ہیں جہاں شدید دھوپ یا سورج کی شعاعیں براہِ راست پڑتی ہیں وہاں
کے لوگوں پر کالے رنگ کا غلبہ ہوتا ہے۔ جہاں سورج کی شعاعیں براہِ راست مسامات کے
اندر داخل نہیں ہوتیں، وہاں نمونے کے طور پر کالا رنگ ہو سکتا ہے ۔ اگر اس رنگ پر
غور کیا جائے تو ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ جلا ہوا رنگ ہے، مراد کالا رنگ نہیں۔
سرخی زیادہ ہوگی یا رنگ گہرا ہوگا۔ بات کو سمجھنے کے لئے غور کیجئے کہ تخلیقات پر
رنگ کا غلبہ ہے۔ اس کی وجوہات اوپر بیان ہوچکی ہیں۔ جہاں تک رنگ کا تعلق ہے تو
کالا،پیلا، اودا، نیلا سب رنگ ہیں۔ رنگوں
میں مستقل تغیر ہے۔ جس چیز میں تغیر ہوتا ہےاس کی بنیاد فریب ہوتی ہے۔جیسے کالے کو
سفید اور سفید کو سرخ کر دیا جائے یعنی کسی ایک رنگ پر دوسرے رنگ کا غلبہ ہونا۔
غلبے کو ہم رنگ دیکھتے ہیں۔ رنگ سے مراد دوری ہے۔ بے رنگی میں تغیر نہیں ہے۔
Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.