Topics

لفافہ رہ گیا


خان بہادر، اسلام آباد۔ دوست کے گھر گیا تو اس کی بہن نے بتایا کہ بھائی موجود نہیں ہے۔ وہ مجھے بھائی سے ملوانے کا کہہ کر ایک نئے مکان میں لے گئی جہاں پر میرے ایک افسر موجود تھے۔ ان صاحب نے مجھ سے مہمانوں جیسا برتاؤ کیا۔ ہماری باتوں کے دوران افسر کی بیگم آئیں مگر شوہر کے اشارے پرچلی گئیں۔

ضروری کاغذات کا لفافہ وہیں بھول کر میں واپس آگیا۔یاد آنے پر دوبارہ افسر صاحب کے گھر گیا تووہ کہنے لگے، کسی اور وقت آکر لے جانا۔ان کو تفصیل بتاتے ہوئے میں نے کہا کہ جس طرح خواب میں جسم بستر پر ہوتا ہے اور بندہ کسی اور جگہ چلا جاتا ہے اسی طرح میں اس وقت اپنے گھر میں سویا ہوا ہوں اور خواب میں متحرک رہنے والا میرا جسم یہاں پر ہے۔

 خیال آیا کہ یہ مکان افسر صاحب کا نہیں ہے ان کی رہائش کہیں اور تھی۔ یہ سوچ کر میں نے ان سے مکان کی تبدیلی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ مکان تبدیل کرچکے ہیں۔

گزارش ہے کہ خواب کی تعبیر کے ساتھ اس امر پر بھی روشنی ڈالئے کہ مجھے یہ کیسے علم ہوا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ جب ہم سو کر اٹھتے ہیں تو یاد رہنے والے خواب میں یہ یاد ہوتا ہے کہ ہم کہیں گئے، کچھ کیا وغیرہ لیکن خواب کے دوران اس بات کا ادراک ہونا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں انوکھی بات ہے جو پہلے پڑھی اور نہ سنی۔

جواب: میرے محترم ! جواب اختصار کے ساتھ موجود ہے کیوں کہ تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔

ہمیں پہلے یہ غور کرنا ہے کہ انسان فطرت سے کس طرح وابستہ ہے۔ وہ جن چیزوں کو دیکھتا ، سنتا، چھوتا اور چکھتا ہے ان کے طور طریقے انسان کے نہیں فطرت کے ہاتھ میں ہیں۔ فطرت کی تعریف میں مختصراً یہ کہہ سکتے ہیں کہ اندرون کائنات ایک عمل جاری و ساری ہے جس کا نام فطرت ہے ۔اس عمل کی حدود میں وصول گاہیں پائی جاتی ہیں۔ یہ وصول گاہیں فطرت کی نشریات کو، جو ہمہ وقت موصول ہوتی ہیں نوٹ کرتی رہتی ہیں ۔ وصول کرنے کی قدریں، وصول گاہوں کی شعوری حدود سے ایک تناسب رکھتی ہیں۔

لوح محفوظ کا قانون یہ ہے کہ وصول گاہوں کا زون جتنا اپنی ذات کے لئے ہوتا ہے، اتنا ہی اپنی ذات کو ترجیح دیتا ہے اور ذات کی حدود میں دور کرتا رہتا ہے۔

اگر یہ زون وقتی طورپر بیرون ذات کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے تو ایسی نشریات بھی وصول کر لیتا ہے جو ذات کے شعور کے دائرے سے باہر ہوتی ہیں اور ان نشریات کو نوٹ کرنے کے بعد خواب میں بیان کر دیتا ہے۔ شعور ان نشریات کا زمان و مکان معین نہیں کرسکتا۔ وہ یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ واقعہ ماضی کا ہے یا مستقبل کا، اور کیا پیش آیا ہے یا آئندہ کیا پیش آئے گا۔

شعور چوں کہ زمان و مکان معین نہیں کر سکتا اس لئے بیداری کے واقعات سے ان کا ربط ملانے سے قاصر رہتا ہے اور جیسے ہی قاصر ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے، شعور کہنے لگتا ہے کہ یہ خواب تھا۔ بالکل اسی طرح خواب کی حالت میں جب یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے تو فوراً ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ میں خواب کی حالت میں ہوں اور خواب در خواب دیکھ رہا ہوں۔خواب در خواب کی صورت حال صرف آپ ہی کے ساتھ پیش نہیں آئی، مگرایسا بہت کم ہوتا ہے۔

 

تعبیر: آپ کے خواب کی تعبیر یہ ہے ۔

یہ خواب ترقی سے متعلق تمثلات پر مشتمل ہے یعنی جن صاحب نے خواب دیکھا ہے وہ اس بات سے پراُمید ہیں کہ کوئی سفارش موجود ہے جب کہ طبیعت کو اطمینان حاصل نہیں کیوں کہ مستحق کوئی اور شخص ہے جو سینئر ہونے کی بنا پر رکاوٹ ہے۔ جن صاحب کےہاتھ میں ترقی دینا ہے وہ ان باتوں سے فی الحال بے خبر ہیں کیوں کہ ترقی دینا یا نہ دینا ، سنیارٹی ،سفارش، ترقی، اور اس جیسی دوسری باتیں ابھی ان کے سامنے موجود نہیں۔ ان صاحب کو صرف اس بات کا احساس ہے کہ محکمہ جاتی حساب سے ایک آدمی کو ترقی دی جانی ہے جس کی تفصیلات پر ابھی کام نہیں ہوا۔

 خواب میں اس بات کا احساس ہونا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں یہ تمثل ہے کہ ارادے میں ابھی یہ معاملات زیر بحث نہیں آئے ہیں کہ ترقی کب دی جائے۔

امید لگائی ہوئی شخصیت کا اس معاملے سے رابطہ نہ ہونے کو ان کے ذہن نے محسوس کرلیا جس کی وجہ سے خواب در خواب ہوگیا۔ دوست کو ڈھونڈنا، اس کی بہن کا راہ نمائی کرنااور نیا مکان یہ سب شبیہیں ہیں اس امید کی جو ترقی سے متعلق ہیں۔ افسر کا یہ کہنا کہ لفافہ کسی اور وقت لے جانا نشان دہی ہے کہ ترقی کے معاملے میں ابھی تک صرف امیدیں ہی ہیں۔

’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘ (جنوری 2020ء)

Topics


Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02

خواجہ شمس الدین عظیمی


"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور  ماہنامہ  قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل  ہے"


غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.