Topics

تعویذ کی حکمت

کراچی: ہال میں ایک بزرگ تقریر فرما رہے ہیں۔ نشست فرشی ہے۔ لوگ  بیٹھے ہوئے ہیں۔ احساس  ہوا کہ پہنچنے میں دیر ہوگئی ہے۔ مجھے شرمندگی ہوئی۔  میں بزرگ کو سلام کرکے ایک طرف   بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد کھڑے ہوکر علمی سوال کیا۔

سوال : روحانی علاج میں تعویذات کا مختلف طریقے سے استعمال ہے۔ جوتعویذ  دو پتھروں کے درمیان دبائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ تعویذ اس طرح رکھا جائے کہ تعویذ پر وزن پڑے۔تعویذ پر وزن پڑنے سے  اثرات مرتب کیوں ہوتے ہیں؟

سوال کیا تھا کہ    ہاتھ میں تعویذ نظر آیا جس پر چار چار اوپر نیچے کرکے سولہ خانے بنے تھے اور ہر خانے میں نمبر لکھے  ہوئے  تھے۔  برائے  کرم خواب کی تعبیر اور خواب میں کئے گئے سوال کا جواب جاننے کا متمنی ہوں۔

تعبیر : محترم  بزرگ  ممتاز احمد  صاحب!

 دعا کا طالب ہوں ۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ،

جب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ  بندہ قرآن کریم  پڑھتا ہے،  پڑھنے سے مراد   ہے کہ قرآن کریم  کی لا زوال  تعلیمات   کو  حرزِ جاں بنانے  کی کوشش کرتا ہے، قرآن کریم  کی عظمت  اور اس  میں  بیان کردہ  حکمت کوسمجھنے کے لئے خاتم النبیینؐ  کی سنت پرعمل  کرتا ہے تو روشن  ہدایت سے   آنکھیں   منور   ہوتی  ہیں۔

کوئی چھوٹی اور  بڑی  بات ایسی نہیں جس کی وضاحت اﷲ کی کتاب قرآن کریم میں موجود  نہ ہو یعنی چھوٹی سے  چھوٹی بات اور بڑی سے بڑی وضاحت قرآن   کریم  میں بیان کر دی گئی ہے ۔ کسی بھی بات کا تجزیہ کیا جائے تو بات مکمل  دستور  العمل ہے ۔ کون سی بات ؟ جو قرآن  کریم نے بیان  کی ہے۔آپ میرے بزرگ ہیں ۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔

قرآن کریم  میں ارشاد ہے،

’’وہی اول ہے، وہی آخرہے ، وہی ظاہر اور  باطن ہے   اور وہ  ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ ‘‘(الحدید: ۳)

ابتدا ، انتہا،ظاہر اور باطن کو  اگر ایک  دائرے میں لکھا جائے تو  منظر کشی اس طرح ہوتی ہے،

کائنات کی رگِ جان   دائروں  پرمحیط ہے ۔

 اوّل کا مطلب اوپر  یعنی آسمان

آخر (وجود عدم موجود)

ظاہر(مظاہرہ)

باطن (پردے میں  چھپا ہوا )

 طوالت مقصود نہیں ۔ میں فقیر آدمی ہوں،  آپ کا مکتوبِ گرامی میرے لئے   قرطاسِ  ابیض ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا ہے کہ تعویذ  فی الواقع  کیا ہے  اور اس میں ہندسوں، دائروں، سرکل، ٹرائی اینگل (مثلث) اورنقطوں کا   مطلب کیا ہے ۔ میں عاجز بندہ ہوں۔ بات نقطہ سے شروع کرنا  چاہتا ہوں ۔

 شماریات کا جب ہم ذکر کرتے ہیں  تو خصوصاً  وہ شماریات  اور وہ شکلیں  جوتعویذات میں لکھی جاتی ہیں،  اس کا نقشہ پیشِ  نظر ہے۔

نقطے کے چار زاویے ہیں۔مشرق، مغرب،  شمال، جنوب۔ ہم جب نقطے کو ایک کونے سے دوسرے کونے میں  اور شمال و جنوب  کے نقطے کوایک دوسرے سے  ملاتے ہیں  تو غور فرمائیے  کہ اب نقطہ نہیں رہا۔ نقطے نے کھل کر زاویوں کی  نشاندہی کی ہے۔

۱۔مشرق    ۲۔ مغرب   ۳۔ شمال   ۴۔   جنوب۔

تعویذات یا نقوش میں جوشکلیں بنائی جاتی  ہیں، ان  کا میکانزم دائرہ  اور  دائرے  کے اندر  ایک، دو، تین،  چار زاویے  ہیں۔

 جب ہم خالق ِ کائنات اﷲ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیقات پرغور کرتے ہیں  تو کوئی تخلیق ایسی نظر نہیں آتی جو نقطہ میں بند نہ ہو۔ فکر طلب ہے کہ دائرہ یعنی نقطہ   نقطے کا  قیام  چار زاویوں  پر ہے ۔

 آپ کا سوال ہے کہ تعویذ  یعنی  کاغذ کے مڑے ہوئے ایک ٹکڑے کو اگر دو پتھروں کے درمیان رکھ دیا جائے تو اس  کے کیا اثرات  مرتب  ہوتے ہیں ؟  اس سلسلے  میں  تشریح  کرنا ہوگی  کہ  پتھر کیاہے اور  پتھر میں خلا کیا ہے  ۔دونوں پتھر  خلا سے مرکب ہیں ۔ بیچ میں کاغذ رکھنے سے  شعوری  طور پر  دو وزن  جب تعویذ کے اوپر نیچے آتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تخلیق کے اوپر  دوسری تخلیقات کا اﷲ نے عمل دخل  رکھا ہے۔

 پتھر کیا ہے؟  کس طرح زمین   پر کھڑا ہے ؟  اگر پتھر میں   سوراخ نہ ہوں، بڑے سے بڑا  پتھر یعنی پہاڑ میں سوراخ نہ ہوں  تو پتھر  کا  وجود عدم  وجود بن جائے گا ۔ اللہ فرماتے ہیں،

’’تم قیاس کی نظر سے پہاڑوں کو جما ہوا دیکھتے ہو،  پہاڑ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں۔ ‘‘ (النملّ: ۸۸)

توجہ فرمایئے کہ اگر  بادلوں میں خلا  نہ ہو تو  کیا پہاڑ قائم رہ سکتے ہیں؟ کیا پہاڑوں میں دانائی، ہوش مندی اورعقل نہیں ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جب اپنی امانت  پیش کی پہاڑ، زمین اور آسمانوں کو تو قرآن کریم پڑھئے کہ پہاڑ گویا ہوئے ۔ گویا ہونے کا مطلب ہے کہ پہاڑ باشعور  ہیں،دانائی رکھتے ہیں،  جوان ہوتے ہیں، قد آور ہوتے ہیں اور پہاڑ کائنات میں ایک فعال نظام ہے۔ اگر پہاڑوں پر برف بسیرا  نہ کرے تو  کائنات ؟

آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہاں ہر شے خلا ہے۔ اﷲ رب العالمین کے بنائے ہوئے  قانون کے تحت  ہر تخلیق خلا ہے ۔پتھرخلا پر قائم ہیں ۔ کاغذ بھی  خلا پر قائم ہے۔ ایک، دو،تین طاقت  خلا پر قائم ہیں ۔ اب تین  طاقتیں زیرِبحث آگئیں ۔ اﷲ کا ارشاد ہے،

’’اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزوں کومسخر کردیا سب کچھ اپنے پاس سے۔ اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔‘‘ (الجاثیہ: ۱۳)

 تین خلا سامنے آگئے۔

۱۔تعویذ یعنی کاغذ یعنی خلا ۔

۲۔ اوپر اور نیچے زمین یعنی پتھرجوسوراخ سے بھرپور ہے۔ 

۳۔ پتھر کا فرش بننا، دو پتھروں کے درمیان خلا موجود ہونا، اس کے اندر کاغذ کی موجودگی اور  کاغذ پر اشکال  ۔ یہ سب جاندارتخلیق ہیں ۔

  آدمی بیمار ہوا ۔ آدمی بھی خلا ہے۔  آدمی کے خلا میں ترتیب وہ نہیں رہی جو صحت کے لئے ضروری ہے۔ جب ہر دو خلا کے درمیان ایک چھوٹا سا خلا آتا ہے یعنی کاغذ کا وہ ٹکڑاجس کو تعویذکہتے ہیں، اس خلا میں وزن ہوتا ہے ۔ کم  ہوتا ہے،  زیادہ بھی  ہوتا ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ خلا میں وزن  زیادہ ہے یعنی  توانائی کاغذ کے اوپر جب کہ کاغذبھی  توانائی ہے۔ کاغذ کے اندر اچھے یا برے اثرات بھی توانائی ہیں۔

ہم نے  توانائی کو ایک نقطہ   یعنی تخریب (بیماری) کی توانائی پر جب دو بہت  زیادہ  توانائیوں کو ایک جگہ  جمع کرلیا تو چھوٹی توانائی  کا تذکرہ  کس طرح ہوگا؟اضافی توانائی جس کو ہم بیماری کہتے ہیں، equation کی  بنیاد پر بیماری نفی ہوجاتی ہے۔ نتیجے میں  بلڈ پریشر ( فشارِخون)، دوسری الجھنیں اور پریشانیاں ختم  ہوجاتی ہیں ۔

ہر چیز  زندہ ہے، مخلوق  ہے، اس میں  وزن ہے ، توازن ہے۔صحت پر جب عدم توانائی کا وزن  آتا ہے تو پہاڑ (پتھر) کی توانائیاں بیمار توانائی کو صحت مند توانائی  میں تبدیل کر دیتی  ہیں۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ  کو عمر کے ساتھ   صحت عطا فرمائے ، آمین۔ 

’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘(   اگست 2024ء)

Topics


Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02

خواجہ شمس الدین عظیمی


"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور  ماہنامہ  قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل  ہے"


غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.