Khuwaab aur Taabeer

ٹیکسی کا کرایہ زیادہ دینا


م ۔ س ٹنڈو آدم۔حیدرآباد میں ایک بہت بڑا ٹیکسی اسٹینڈ ہے میں اور والد صاحب ایک ٹیکسی روکتے ہیں۔ مگر وہ خالی نہیں ہوتی۔ سڑک کے کنارے کھڑے کھڑے دوسری ٹیکسی کو ہاتھ کا اشارہ دیتے ہیں۔ مگر وہ بھی گردن ہلا کر چلا جاتا ہے ۔ تیسری ٹیکسی کو آواز دی جاتی ہے یہ حضرت تو اشارے سے بھی کچھ جواب نہیں دیتے اور سیدھے بھاگے چلے جاتے ہیں ۔ اﷲ اﷲ کر کے چوتھی ٹیکسی رکی اس میں پہلے ہی سے عورتیں بھری ہوئی ہیں ۔ مگر میں اور والد صاحب بھی اس ٹیکسی میں بیٹھ جاتے ہیں اور ٹیکسی روانہ ہو جاتی ہے دورانِ سفر عورتیں غائب ہوجاتی ہیں۔ والد صاحب بھی ایک جگہ اتر جاتے ہیں ۔ میں تنہا میو نسپل ہاؤس اسکول جا رہا ہوں۔ اسکول کے دروازے پر ٹیکسی رکی۔ تو میں نے دیکھا کہ میرے ماسٹر صاحب دروازے پر کھڑے ہیں۔ ٹیکسی سے اتر کر ماسٹر صاحب کو سلام کیا۔ ڈرائیور سے پوچھا۔ والد صاحب نے تمہیں کرایہ دے دیا ہے۔ اس نے کہا کہ صرف بارہ آنے دئیے ہیں ۔ میں نے جیب سے پندرہ روپے نکال کر ٹیکسی ڈرائیور کی طرف بڑھا دئیے لیکن ماسٹر صاحب نے جلدی سے آگے بڑھ کر وہ روپے میرے ہاتھ سے چھین لئےماسٹر صاحب نے دو روپے مجھے دے دیئے اور تین روپے ٹیکسی ڈرائیور کو باقی دس روپے خود رکھ لئےاور کہا جب ضرورت ہوگی لے لینا میں کلاس میں چلا جاتا ہوں میرے ارد گرد لڑکے جمع ہوتے ہیں۔ ان میں ایک لڑکی بھی ہوتی ہے ۔ میں باتیں کرتے کرتے اس لڑکی کا رومال چوسنے لگتا ہوں۔ جب اچھی طرح چوس لیتا ہوں۔ تو رومال لڑکی کو دے دیتا ہوں۔

لڑکے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تم کو امتحان میں سلپ مل گئی ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں میں تو ٹنڈو محمد خان سے امتحان دوں گا ۔ چھٹی ہونے پر اسکول سے گھر جاتا ہوں تو دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ ہمارا گھر بہت بڑا محل نما ہے۔والد صاحب گنے کا رس اپنے ہاتھ سے نکال کر مہمانوں کو بھیج رہے ہیں۔ میں نے نوکر کے ہاتھ سے رس کا گلاس لے کر چکھا اور شربت باہر بھیج دیا ۔ گھر کے صحن میں تین بڑی بڑی خوبصورت کاریں کھڑی ہیں گھر کا باغ بھی ماشاءاللہ خوب ہے ہر طرف پھول پھلواری کا جوبن نظر آتا ہے۔ باغ لگانے میں نہایت ذوق اور سلیقہ استعمال کیا گیا ہے۔ تین قسم کے گلاب کے پھول ہیں ۔ اور ہر قسم کا ایک تختہ ہے۔ احاطہ ٔدیوار کے ساتھ رات کی رانی اور چنبلی کی بیلیں ہیں ۔ بہت بڑا لان ہے اور لان کے بالکل وسط میں ایک بے بیضوی حوض ہے۔ اس خوض میں کنول کے پھول سر اٹھائے ہنس رہے ہیں۔ باغ کا ایک حصہ پھلوں کے لئےوقف ہے اور یہاں بھی سلیقہ اور محنت نمایاں ہے ۔لیموں کے درخت ہیں تو ایک قطار میں اسی طرح دوسرے قسم کے درخت قطار و قطار لگے ہوئے ہیں ۔ اسی قطعہ میں ایک حصہ کھیتی باڑی اور سبزیوں کے لئےمخلوص ہے۔ باغ کے بالکل وسط میں محل نما مکان بنا ہوا ہے ۔ اس مکان میں بارہ یا پندرہ کمرے ہیں ،کمرے بھی سب کے سب آراستہ و پیر استہ ہیں۔ ایک کمرہ دادی اماں بیٹھی پان کھا رہی ہیں، دادی اماں نے کہا ۔ بچوں! تمام لیموں توڑ لو کیونکہ باغ کسی اور کو دینا ہے۔ سب بہن بھائی باغ کےلیموں توڑنے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ میں نے تقریباً آٹھ سو یا ہزار لیموں توڑے۔ پھر دادی نے کہا اب کیلے توڑ لو، چنانچہ ہم نے کیلوں کے درختوں پر ہلہ بول دیا پھر دیکھا کہ ہم لوگ زمین کرید کریدمونگ پھلی نکال رہے ہیں ۔ میں دل میں سوچ رہا ہوں کہ مونگ پھلی تو درخت پر لگتی ہے، یہ زمین سے کیسے نکل رہی ہے۔ ہم لوگ توڑنے کے ساتھ مونگ پھلیاں کھاتے بھی جاتے ہیں۔ مونگ پھلی سے فارغ ہو کر مولی اکھاڑنا شروع کردیتے ہیں۔ میں مولی لے جا کر والدہ کو دکھاتا ہوں اور پوچھتا ہوں کیا یہی مولی ہے؟ والدہ کہتی ہیں ہاں یہی مولی ہے۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ مولی تو ہم کھاتے ہی نہیں۔

تعبیر:خواب دیکھنے والے صاحب اور ان کا خاندان جس گھر میں رہ رہے ہیں ۔ اس سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر کوئی نخلستان ہے۔ اس نخلستان کی دلچسپیاں ذہن میں پیوست ہو گئی ہیں ۔ خواب کے اندر جو شبیہیں بنی ہیں۔ وہ شبیہیں نخلستان میں کبھی کبھی آنے جانے سے تحت الشعور کے اندر محفوظ رہ گئی ہیں۔ خواب دیکھنے سے پہلے کسی وجہ سے طبیعت میں بیزاری پیدا ہوئی اور اس بیزاری میں ہی نیند آگئی ذہن نے اپنی بیزاری کو دور کرنے کے لئےاس تمثلات کو دہرا دیا جو وقتاً فوقتاً واقعات کی صورت میں نمایاں ہوئے تھے۔ جس کا تعلق زیادہ تر نخلستان اور راستہ سے ہے۔

خواب میں باغ کے پہلے کے مناظر مثلا ٹیکسی اسکول، ماسٹر صاحب روپوں کی تقسیم اور عورتوں کا غائب ہو جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ خواب دیکھنے والے صاحب سے فضول خرچی سرزد ہوتی ہے جس کا اشارہ خواب میں ماسٹر صاحب کے ذریعے ہوا ہے۔

’’روحانی ڈائجسٹ ‘‘(ستمبر83ء)

Topics


Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02

خواجہ شمس الدین عظیمی


"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور  ماہنامہ  قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل  ہے"


غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.