Khuwaab aur Taabeer

شوہر کو بچے کی طرح گود میں دیکھنا


آج رات میں نے خواب دیکھا کہ میں اور شوہر آپس میں کسی بات پر جھگڑا کر رہے ہیں۔ جھگڑتے ہوئے اچانک وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ اور کھڑے کھڑے گرنے لگتے ہیں۔ میں فوراً بڑھ کر ان کو تھامنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اتنی دیر میں وہ ایک دم چھوٹے سے بچے بن جاتے ہیں۔ میں ان کو اپنے بچے کی شکل میں اپنی گود میں اٹھا لیتی ہوں۔ بچہ کی نظریں ساکت ہیں۔ میں ڈرتی ہوں کہ شاید اب ان کا آخری وقت ہے ۔ میرے پاس ایک عورت بھی ہے۔ وہ مجھے کہتی ہے کلمہ پڑھو ۔ میں پہلا کلمہ پڑھنے لگتی ہوں۔ وہ عورت کہتی ہے کلمہ شہادت پڑھو۔ میں کلمۂ شہادت کا ورد کرنے لگتی ہوں۔ اتنے میں میرے شوہر کی جو بچے ہی کی شکل میں ہیں آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ میں ان کو پلنگ پر لٹا دیتی ہوں۔ میں روتی ہوئی جاتی ہوں اور امی جان (ساس) کو بتاتی ہوں آپ کے لڑکے کو کچھ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد اپنے چھوٹے دیور اور نند کو بھی جا کر بتاتی ہوں۔ میرا دیور اسی کمرے میں جہاں اس کا بھائی پڑا ہوتا ہے، آ کر صوفے پر بیٹھ جاتا ہے ۔ اتنے میں رات ہو جاتی ہے اگرچہ روشنی دن ہی کی طرح ہوتی ہے ۔ لیکن سب سونے کا انتظام کرتے ہیں کہ رات ہو گئی ہے ۔ اس کے بعد دیکھتی ہوں کہ میرے شوہر باہر صحن میں پہلو کے بل قبلہ کی طرف چہرہ کئے لیٹے ہیں اور اب وہ دوبارہ اپنی اصلی شکل و صورت میں آگئے ہیں۔ ان کے پیروں کی طرف ان کے بڑے بھائی کا لڑکا سویا ہے ۔ وہ لڑکا اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ بارش ہو رہی ہے۔ میں مسلسل رو رہی ہوں اور روتے ہوئے ان کے چہرے پر ہاتھ پھیرتی ہوں۔ ان کی داڑھی پانی سے تر ہوتی ہے اور بازو بھی گیلا ہوتا ہے۔ میں ان کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچتی ہوں کہ میں ان سے لڑتی رہتی تھی۔ اب یہ مجھ سے دور ہو گئے ہیں۔ اتنے میں وہ دوبارہ زندہ ہو جاتے ہیں اور اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوتی ہوں کہ وہ زندہ ہو گئے۔ اس کے بعد دیکھتی ہوں کہ میں ابھی بیٹھک میں کھڑی ہوں۔

  تعبیر:ازدواجی تعلقات میں کوئی ایسی عادت اختیار کی جاتی ہے جو بہت غلط اور ضمیر کے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔ اس کا تدارک ہونا ضروری ہے۔

’’روحانی ڈائجسٹ ‘‘ (دسمبر 84 ء)

Topics


Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02

خواجہ شمس الدین عظیمی


"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور  ماہنامہ  قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل  ہے"


غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.