Khuwaab aur Taabeer

دودھیا روشنی


ی م، گلشن اقبال: زمین کے اندر سفید لباس پہنے لمبے قد کی ایسی حسین خواتین کھڑی ہیں جن سے دودھیا روشنی پھوٹ رہی ہے۔ زمین سے باہر ہاتھ نکال کر اشارے سے مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ یہاں آؤ، ہم مدد کریں گے۔ پھر بزرگوں کو پہاڑوں کی شکل میں دیکھا۔ وہاں سے بڑے بڑے ہاتھ باہر آکر مجھے بلاتے ہیں۔ جب میں قریب گئی تو انہوں نے ہاتھ ملایا۔

 

تعبیر: ہر جگہ ذات کا تعارف صلاحیتوں کی بنا پر ہے۔ مثال مشہور ہے کہ بلّی کو خواب میں چھیچھڑے نظر آتے ہیں۔ الجھے ہوئے ذہن میں ایسے نقوش مرتب ہوتے ہیں جن کا سر پیر نہیں ہوتا اور جب خیالات کی منفی تکرار ہوتی ہے تو دماغ بوجھل ہوجاتا ہے اور اس بوجھ کے غلیظ پردے میں کثیف خیالات آتے ہیں ۔

 اولی الالباب خواتین و حضرات کو اس بات کاعلم ہے کہ آدمی کا ذہن ایک اسکرین ہے اور اسکرین پر آبادی ،خیالات کا عکس ہے۔عکس کا مطلب illusion یا reality دو ایسےعنصرہیں جیسے ریل کی دو پٹریاں ۔ حافظے میں موجود اس خیالی دنیا کے دو رخ ہیں ۔ ایک رخ وہ خیالات ہیں جوغم، بغاوت، بیزاری اور ناامیدی کے نقوش ہیں ۔ دوسرا رخ مسرت و شادمانی، خوشی، قناعت، یقین اور ذات ِباری تعالیٰ کے ساتھ مخلوق کا رشتہ ہے۔ اس بات کو صوفیائے کرام نے قرآن کریم کی روشنی میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ پریشانی، بدحالی، مایوسی، غصہ، بخل، ضد، انتقام، ذہن چوری، کبر، غیبت ، فرائضِ منصبی پرعمل نہ ہونا، اچھائی اور برائی کے درمیان نتائج کی طرف سے قطع نظر کسی ایک رخ کو قبول کر نا۔ قبول کرنے کے بھی دو رخ ہیں ۔ ایک رخ میں الٰہی تعلیمات، پیغمبرانِ کرام کی سنت اور لوگوں کا اچھا کردار ریکارڈہے،  اﷲ سے قربت، ایمان بالیقین، مشاہدۂ حق اور اعمال ِ صالحہ، علیین کی زندگی پرعمل اور وحدہ ُ لاشریک رب العالمین سے قربت ہے۔

خواب کی تعبیر اچھی ہے ۔ اﷲتعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو اس پروگرام پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اعلیٰ علیین ہے۔قانون یہ ہے کہ ہرعمل خیال کے تابع ہے اور خیال زندگی کا ریکارڈ ہے۔ ہرعلم عمل سے آتا ہےاور علم سیکھنے کے لئے استاد کی ضرورت ہے۔

’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘ (اگست    2023ء)

Topics


Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02

خواجہ شمس الدین عظیمی


"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور  ماہنامہ  قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل  ہے"


غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.