Khuwaab aur Taabeer

دروازہ کھلا نظر آیا


خوشی محمد، گوجرانوالہ۔ ایک مراقبہ ہال میں داخل ہو کر کمرے میں گیا جہاں دروازہ کھلا نظر آیا۔ دروازے کے دوسری طرف گھاس سے بھرا ہوا خوب صورت لان ہے وہاں ایک صاحب بیٹھے ہیں جن کے سامنے میزپر رجسٹر اور ہاتھ میں بڑا قلم ہے۔ حیران ہوں کہ یہ صاحب تو دنیا سے جاچکے ہیں۔ اتنے میں کئی لوگ وہاں آتے ہیں جن میں زیادہ تردوسرے شہر کے ہیں۔ میں ان صاحب سے معلوم کرتا ہوں کہ اتنے افراد آگئے ہیں کیانائب نگراں مراقبہ ہال کو خبر کردی ہے؟ اس کے ساتھ ہی جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔

 

تعبیر : عالم اعراف کے لوگ دنیا میں آتے جا تے رہتے ہیں ۔ وہ ہمیں دیکھتے ہیں ہمارے گھروں میں بھی آتے ہیں۔ قصداً اس لئے ظاہر نہیں ہوتے کہ دنیا کے باسی ڈر جاتے ہیں۔ مرنے کے بعد کا عالم ہماری دنیا کے عالم کی طرح ہے ۔ دنیا میں ہم جو کچھ کر تے ہیں وہ مسلسل ریکارڈ ہو رہا ہے یعنی ہماری فلم بن رہی ہے ۔ کراماً کاتبین دو فرشتوں کی ہمہ وقت ڈیوٹی ہے ۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ آپ کیا سمجھے اعلیٰ زندگی کیا ہے اور کیا سمجھے کہ اسفل زندگی کیا ہے۔ اعلیٰ زندگی جنت نظیر زندگی ہے اور اسفل زندگی دوزخ ہے ۔ کراماً کاتبین دو فرشتے ،ہمہ وقت آدمی جو کچھ کرتا ہے ، اس کو لکھ لیتے ہیں۔ اچھے اعمال کے ساتھ ہر قسم کی آسائشیں لکھی جا تی ہیں اور برے اعمال کے ساتھ تکلیف اور متعین سزا لکھی جاتی ہے ۔

 سمجھنے کے لئے، لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر بندے کے کندھوں پر دو فرشتوں کی ڈیوٹی ہے ۔ آدمی جو کچھ کرتا ہے اچھے اعمال کے ساتھ جزا یعنی انعام و اکرام کی فلم بنتی ہے اور برے اعمال کے ساتھ اسفل زندگی لکھی جا تی ہے ۔ یعنی اچھے اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر انعامات اور برے اعمال کے ساتھ شریعت کے مطابق اضطراب، پریشانی ، صعوبت اور لا شمار تکالیف لکھی جاتی ہیں ۔

سمجھنے کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ ہم دنیا میں جو کچھ کرتے ہیں ریکارڈ ہو رہا ہے ۔ ریکارڈ میں برے اعمال کی سزا اور سزا کی تفصیلات کی فلم بن جاتی ہے ۔ اگر کسی آدمی نے چوری کی ہے تو شریعت کے مطابق فلم میں اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ فلم دیکھتے وقت ذہن اس طر ف سے ہٹ جاتا ہے کہ یہ فلم ہے۔ جب وہ تصویر میں ہاتھ کاٹنے کا عمل دیکھتا ہے تو اسے ہاتھ کاٹنے کی تکلیف ہو تی ہے اور تکلیف کا اظہار چیخنے چلانے اور رونے سے ہوتا ہے۔ اسی طر ح اچھے اعمال کی جزا کی فلم بنتی ہے۔ کوئی اچھا عمل کیا، اللہ کی مخلوق کی خدمت کی، رسول اللہۖ کے ارشادات پر عمل کیا، اللہ کو حاضرو ناظر جانا تو ان تمام کرداروں کی فلم انعامات و اکرام میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آپ کیا سمجھے کہ اعلیٰ زندگی کیا ہے ، لکھی ہوئی کتاب ۔ آپ کیا سمجھے کہ اسفل زندگی کیا ہے ، لکھی ہوئی کتاب ہے ۔ اس کی فلم تکالیف کی شکل میں نظر آتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کردار کو کتاب المرقوم یعنی لکھی ہوئی کتاب فرمایا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس لکھی ہوئی کتاب کو اللہ کے وہ بندے دیکھتے ہیں ، پڑھتے ہیں، سمجھتے ہیں جوقرآن و حدیث کی ہدایت کے مطابق اللہ کے لئے زندگی گزارتے ہیں۔

دنیا میں آدمی جو کچھ کرتا ہے اس کی دو طرزیں ہیں برائی اور اچھائی ۔ دنیا سے جانے کے بعد جس زون میں ہمارا قیام ہوتا ہے اس کا نام اعراف ہے۔

 اعراف کے دو درجے ہیں۔ ایک درجے میں الٰہی قانون پر عمل کر نے والے آسائش و آرام کے ساتھ رہتے ہیں ۔دوسرے درجے میں لوگ خوف و ہراس اور انتہائی درجہ تکلیف کی زندگی گزارتے ہیں۔

خواب دیکھنے والے صاحب نے اسی قانون کے تحت خواب دیکھا ہے ۔یہ قرآن کریم میں سورہ مطففین میں ہے ۔خواب دیکھنے والے صاحب نے عالم اعراف میں رہنے والے ایک عظیمی بھائی کو اعلیٰ زندگی میں دیکھا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم دنیا میں رہتے ہو ئے ایسے اعمال کریں کہ زندگی کی ہر خوشی میسر ہو ۔ بواسطہ سرور کائنات علیہ الصلوٰة والسلام دعا ہے کہ مرنے کے بعد اس زون سے محفوظ رکھیں جہاں رحمت اورآرام کا تصور نہیں ہے۔

محترم قارئین ! قران کریم کے تیسویں پارے کی اس سورہ میں دو زخ اور جنت کا جو قانون بیان ہوا ہے اس کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں اور اس پر تفکر کریں کہ ہماری زندگی کس راستے پر رواں دواں ہے—؟

’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘ (نومبر 2019ء)

Topics


Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02

خواجہ شمس الدین عظیمی


"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور  ماہنامہ  قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل  ہے"


غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.