Khuwaab aur Taabeer
انجم باسط..........میں
آپ سے یہ سوال کرنے کی اجازت چاہتی ہوں کہ خواب ہر کس ونا کس کو بیان کرنا چاہیٔے یا
نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آدمی خواب کیوں دیکھتا ہے اور خواب میں دیکھے ہوئے
واقعات اور کیے ہوئے اعمال کیا واقعی کوئی اہمیت رکھتے ہیں؟
اب میں اپنا
خواب بیان کرتی ہوں ۔ میں نے رات کے تین بجے کے درمیان خواب میں دیکھا کہ میں اپنے
انڈیا کے صحن میں بیٹھی ہوئی ہوں میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو آسمان ستاروں سے اس
طرح بھرا ہوا ہے کہ ایک انچ جگہ بھی خالی نظر نہیں آتی ستارے روشن اور بہت چمکدار
ہیں، رات انتہائی تاریک ہے آسمان بھی گہرا سیاہ ہے آسمان پر ستاروں کی جھرمٹ میں
تکونی شکل کا چاند پوری اب و تاب کے ساتھ ضیاء کہہ رہا ہے چند سیکنڈ کے بعد چاند
اور ستارے میرے بائیں ہاتھ کی طرف جاتے نظرآئے ۔ میری آنکھ کھلی تو فجر کا
وقت تھا۔
جواب۔ بی
بی! سب سے پہلے میں تمہارے اس سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ انسان خواب کیوں
دیکھتا ہے۔
تمہارے اس
سوال کے جواب میں بہت طویل تبصرہ درکار ہے البتہ اختصار کے ساتھ دو ایک بنیادی باتیں
تحریر کی جاتی ہیں۔
نوع ِانسانی
جب سے حواس رکھتی ہے وہ کچھ نہ کچھ سوچنےسمجھنے اور نتائج نکالنے کی عادی
ہے۔ آج تک شعور کی کوئی شاخ، خواہ وہ فلسفہ ہو طبعیات ہو یا نفسیات………. کائنات کی بنیادموج امکانی( لازمانیت) کے
علاوہ کسی اور چیز کو قرار نہیں دے سکی۔ کائنات کی بنیاد میں تصور شے کے علاوہ خود
شیر کی محسوسیت اور شے کے ٹھوس پن کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یہ شبہیں اور
تصورات ہیں جو ہمارے دماغ کی سطح پر بنتے ہیں ہم ان شبیہوں اور تصورات کے علاوہ کسی
اور حقیقت سے ناواقف ہیں ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ خارجی دنیا میں وہ کون سی محرکات
ہیں جو یہ شبہیں نشر کرتے ہیں اور ان محرکات کی ماہیت کا بھی ہمیں کوئی علم نہیں
ہے ۔یہ بات نوعِ انسانی کو کبھی معلوم نہیں ہو سکی۔ کہ زمانی مکانی محل وقوع اور
اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ چنانچہ یہ کہنا کہ انسان کے ذہن کو صرف خارجی دنیا
ہی کنٹرول کرتی ہے اور خارجی دنیا ہی دماغی سطح پر شبیہیں بناتی ہے نیز حواس کا درو
بست خارجی دنیا ہی کے ہاتھ میں ہے محض مغالطہ ہے کائنات کی بنا جبکہ موج
امکانی ہے تو کسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ موج امکانی خارجی ہو سکتی ہے داخلی نہیں
ہو سکتی۔ یہ بنیادی غلطی ہے کہ موج امکانی کو کسی دائرے میں خواہ وہ خارجی ہو یا
داخلی محدود کر دیا جائے ۔بہر صورت ہمارے حواس کی ڈوری جہاں سے اپنی جنبش شروع
کرتی ہے وہ لازمانیت ہے اور لازمانیت کا خارج اور داخل نہیں ہوتا۔ لہذا ہمارے حواس
کا محرک جس طرح ماضی ہو سکتا ہے جس کو ہم خارجی اور ظاہری دنیا کہتے ہیں اسی
طرح مستقبل بھی ہوتا ہے جس کو ہم غائب ، نامعلوم اور داخلی دنیا کہتے ہیں۔ معلوم
اور نامعلوم کے درمیان خود ہمارے حواس نے پردہ کھینچ دیا ہے لازمانت کا اس پردے سے
کوئی تعلق نہیں، ہمارے حو اس خواب میں بھی اسی طرح تحریک پاتے ہیں جیسے بیداری میں۔
اپ کا یہ سوال
کہ خواب میں دیکھے ہوئے واقعات اور کئے ہوئے اعمال کیا واقعی اہمیت رکھتے ہیں؟ اس
کا جواب سورہ یوسف میں موجود ہے سورہ یوسف میں چار خوابوں کا ذکر ایا ہے یوسفؑ نے
کہا ،اے میرے باپ میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ،سورج اور چاند مجھے سجدہ
کر رہے ہیں۔ اسی طرح جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں قید تھے تو قیدیوں میں سے
دو قیدیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے اپنے خواب سنا ئے ۔ ایک نے بتایا کہ میں
نے خواب دیکھا ہے کہ میں انگور نچوڑ رہا ہوں۔ ۔۔۔۔۔ دوسرے نے کہا میں نے یہ دیکھا
ہے کہ میں سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اسے کھا رہے ہیں۔ قرآن پاک میں بیان
کردہ چوتھا خواب بادشاہ مصر کا ہے بادشاہ نے خواب دیکھا کہ ساتھ موٹی گائیں ہیں
اور ساتھ دبلی گائیں سات موٹی کو نگل رہی ہیں اور ساتھ بالیں ہری ہیں اور دوسری
سات سوکھی۔ ساتھ خشک بالیں ساتھ ہری بالوں کو کھا رہی ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ
قرآن پاک میں بیان شدہ ان خوابوں میں ایک خواب پیغمبر کا ہے اور تین خواب عام
انسانوں کے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے
کہ حالات و واقعات اسی طرح پیش آئے جس طرح خوابوں میں نشاندہی کی گئی تھی اس سوال(
کہ خواب کسی شخص سے بیان کرنا چاہیٔے یا نہیں) ۔ کے جواب میں عرض ہے کہ
خواب کبھی کسی ایسے شخص سے بیان نہیں کرنا چاہیٔے جو کم سے کم بھی خواب کی
تعبیر اور خواب کی فطرت سے واقف نہ ہو۔ ورنہ اس خواب یا اس کی دی ہوئی تعبیر یا اس
کے الفاظ خواب دیکھنے والے کے ذہن کو غلط محرکات پر۔ ڈال سکتے ہیں......... اب آپ
کا خواب اور اس کی تعبیر بیان کی جاتی ہے............
تعبیر: ستارے بہت سی امیدوں میں تمثلات ہیں ۔ جن کا
اجتماع چاند کی صورت میں نظر آیا ہے اس خواب کی تعبیر خوش آئند ہے۔
Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.