Khuwaab aur Taabeer
فریدہ عالم، کراچی۔ ایک بزرگ کی بہونے مجھے کام بتایا کہ بزرگ کو روزانہ ناشتے کی ٹرے
پہنچاناہے۔بہت خوشی ہوتی ہے کہ بزرگ کی قربت ملے گی، تصور میں ان سے باتیں کرتی
اور پیر وں کو ہاتھ لگاتی ہوں۔ پہلے دن ناشتہ کی ٹرے لے جاتی ہوں تو وہ موجود نہیں
ہوتے ، انتظار کرتے ہوئے سوچتی ہوں میں کتنی خوش نصیب ہوں کہ ایسی ہستی کا بچا ہوا
ناشتہ پانی میرے حصہ میں آئے گا ۔ دوسری صبح یہ خوشی فکرمندی میں تبدیل ہوجاتی ہے
کہ میں ان سے اجازت کے بغیر کس طرح بات کرسکتی ہوں اور کمرے میں میری موجودگی بات
کرنے کی اجازت تو نہیں ہے کیونکہ ان کی خاموشی بھی عبادت ہے اور اگر وہ سو رہے ہیں
تو روحانی طور پر کسی اور جگہ موجود ہوں گے۔ جب تک وہ خود مجھے کچھ نہیں دیں ان کے
بچے ہوئے کھانے سے وہ حاصل نہیں ہوگا جو مجھے چاہئے یعنی ولایت۔ان بزرگ کا ایک
دفعہ مسکراتا ہوا چہرہ نظر آتا ہے جیسے میری سمجھ میں بات آگئی ہے۔
تعبیر: خواب ظاہر کرتا ہے قال زیادہ ہے اورحال کا پتہ نہیں۔
علم دو ہیں اور ہر علم میں بہت سارے علوم چھپے ہوئے ہیں۔ دنیاوی علوم Fiction ہیں اور روحانی علوم حقیقی (Real) ہیں۔ دنیاوی علوم میں مسلسل تغیر ہے جبکہ روحانی علوم میں تغیر کی
گنجائش نہیں۔ روحانی علوم غالب ہیں اور دنیاوی علوم مغلوب ہیں۔ مغلوب میں تغیر
واقع ہوتا ہے لیکن غالب میں تغیر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ چونکہ واحد، یکتا اور بے
مثال ہیں اورمخلوق تغیر کے علاوہ کوئی ہستی نہیں رکھتی۔ آپ جو صاحبہ یا صاحب یہ
مضمون پڑھ رہے ہیں وہ تین منٹ کے لئے آنکھیں بند کرلیں، سوچیں کہ جب میں دنیا میں
نہیں تھا تو کہاں تھا جب دنیا میں ظاہر ہوا تو مٹر کے دانے سے بھی بہت چھوٹا
وجودتھا، ہاتھ پیر آنکھ ناک کا کوئی تذکرہ نہیں آہستہ آہستہ بڑا ہوناشروع ہوا
اور ایک خوبصورت مکمل تصویر بن کر نمودار ہوا۔ مٹر سے چھوٹے دانے کی نشوونما میں دو
سو ستر (270) دن، چھ ہزار چار سو اسی (6,480) گھنٹے اور تین لاکھ اٹھاسی ہزار آٹھ
سو (3,88,800) منٹ لگے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جان میں جان ہونے کے باوجود نظروں سے
اوجھل رہی اور جب جان سے جان مل کر الگ جان بنی تو دنیا میں اس کا مظاہرہ ہوگیا۔
قارئین! یہ مظاہرہ بھی ہر منٹ قائم رہا اور تبدیل ہوتا رہا۔ غیب حاضر حاضر غیب کا یہ
عمل ایک کروڑ پندرہ لاکھ اڑسٹھ ہزار نو سو ساٹھ (1,15,68,960) منٹ پر محیط ہوگیا۔
سِن بلوغت کے بعد انحطاط کی دھوپ چھائوں نے کَسے ہوئے جسم پر جھریاں ڈال دیں، وہ
اس حال میں بھی دنیا میں رہنا چاہتا ہے۔ قارئین سے سوال یہ ہے کہ ساٹھ سال کے ماہ
و سال جو تین کروڑچورانوے لاکھ اکتالیس ہزار چھ سو(3,94,41,600) منٹ پر مشتمل ہیں
کہاں چلے گئے؟ نظر کیوں نہیں آتے؟ نہ چاہنے کے باوجود آدمی کے جسم میں رگوں کا
جال جس میں تار برقی نظام قائم رکھا ہوا تھا وہ کہاں غائب ہوگیا؟ وہ کیوں ختم ہوگیا
اور غیب کے کون سے پردے میں چھپ گیا۔
ہم اپنے دوستوں سے یہ سوال کرنے میں یقیناً حق بجانب ہیںہم جب اسپرم نہیں تھے تو کہاں تھے اور جب لٹکی ہوئی کھال، جھکا ہوا قد، بے نظر آنکھوں کے باوجود بھی یہاں رہنا چاہتے ہیں تو سونا ،جواہرات ، جائیداد، اولاد، ماں باپ سب کچھ چھوڑ کر کیوں چلے جاتے ہیں ؟ جواب کا انتظار رہے گا۔
’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘ (دسمبر 2014ء)
Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.