Khuwaab aur Taabeer
ع ر،کراچی۔ عرس کی محفل میں شریک ہوں۔ ایک بزرگ تشریف لائے جن سے لوگ ملاقات
کررہے ہیں۔ میں بھی ملاقات کا شرف حاصل کرتا ہوں۔ مجھے دیکھ کربزرگ خوشی کااظہار
کرتے ہیں اس کے بعدمیں اپنی بہن اور بھائی کو بزرگ سے ملواتا ہوں۔ خواتین جہاں
نماز پڑھ رہی ہیں وہاں والدہ موجود ہیں، ہم دونوں کہیں جانے لگتے ہیں کہ دیکھاسامنے
سے بزرگ تشریف لارہے ہیں۔ میں بزرگ کی خدمت میں باادب عرض کرتاہوں کہ یہ میری
والدہ ہیں۔ بزرگ کے چہرہ پر مسکراہٹ ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ آج میرے تمام گھر
والے آپ کی ملاقات سے مشرف ہوئے۔ بزرگ میراہاتھ پکڑ کر بس کی طرف لے کر جاتے ہیں جو تھوڑی سی اونچائی پرسامنے نظر آرہی ہے مگر
جب ہم چلے تو پہاڑوں، جن پر برف جمی ہے، اور وادیوں سے گزرکربس تک پہنچے۔ راستہ میں
بزرگ نے دودفعہ نصیحت آمیز شعر سنایا جو مجھے یاد نہیں رہا۔ اس کے بعد بزرگ
فرماتے ہیں، زیادہ آگے نہیں بڑھو اپنی جگہ قائم رہو خودبخود آگے نکل جاؤگے۔
سامنے کھڑی بس کی مثال دیتے ہوئے فرمایا ، وہ دیکھوپیچھے بیٹھے ہوئے لوگ خودبخود
آگے چلے جائیں گے۔
تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے الحمدللہ آپ بزرگوں سے عقیدت رکھتے ہیں۔
بزرگ کی نصیحت بہت زیادہ قابل توجہ ہے۔ جو لوگ بس میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں
وہ بھی منزل تک پہنچتے ہیں۔ مطلب واضح ہے کہ آدمی جب کوئی علم سیکھنے کی طرف
متوجہ ہوتا ہے اور علم سیکھنے کے آداب پورے کرتا ہے تووہ آگے پیچھے کو نہیں دیکھتا۔ مسافر بس میں اگلی سیٹوں پر بیٹھنے
سے خوش ہوتا ہے لیکن اگر پچھلی سیٹوں پر جگہ مل جائے تو بس میں سوار ہوجاتا ہے اور
ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسافر سوچتا ہے میں اگلی سیٹوں پر بیٹھوں گا لیکن پیچھے سے جو
بس آرہی ہے اس میں اگلی سیٹیں خالی نہیں۔ مفہوم یہ ہے جب کوئی علم سیکھنا ہو یا
کام کرنا ہو آگے پیچھے دیکھنے کے بجائے جدوجہد شروع کردینی چاہئے۔ اگر اس بات کا
انتظار کیا جائے کہ ا گلی سیٹوں پر ہی بیٹھنا ہے تو ہوسکتا ہے چار پانچ بسیں
گزرجائیں اور مسافر سڑک پر کھڑا رہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا طریقہ صرف تعلیم حاصل
کرنا ہے۔ اگلی سیٹوں پر بیٹھنے کو ترجیح دینا اور بس میں سوار نہ ہونا خلاف عقل
ہے، دراصل یہ راستہ کھوٹا کرنا ہے۔
Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.