Khuwaab aur Taabeer

کھانے کی خوش بو


غزالہ فلک ناز، کورنگی۔ دیکھا کہ حسین اور خوب صورت جگہ ہے۔ میں چھوٹے کمرے میں ایک عورت کے ساتھ ہوں۔کمرا بہت ہوادار ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ دروازہ اور کھڑکیوں پر پردہ پڑا ہوا تھا۔کچھ دیر بعد کھانے کا وقت ہواتو سب لوگوں نے لائن لگاکر کھانا لیا۔ہرایک نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ کھانے کی خوش بو نے مجھے بے تاب کردیا اور دل چاہاکہ کھانا کھالوں۔ پردہ ہٹاکر دیکھا، لوگ کھانا کھاکر جا چکے تھے۔

 

تعبیر: خواب اچھا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھوکوں کو کھانا کھلانے سے خوش ہوتے ہیں اور رزق میں برکت ہوتی ہے۔ دادی اماں نے بچپن میں ایک قصہ سنایا تھا۔

حضرت موسیٰ  کے زمانہ میں میاں بیوی معاشی اعتبار سے بہت پریشان تھے۔ بیگم نے شوہر کو حضرت موسیٰ   کے پاس بھیجا، ان سے درخواست کی کہ آپ کلیم اللہ اور اللہ کے دوست ،برگزیدہ بندے ہیں، ہم رزق کی طرف سے بہت پریشان ہیں اللہ تعالیٰ تک ہماری درخواست پہنچادیں کہ جو کچھ ہمارے نصیب میں ہے وہ ایک ہی مرتبہ عطا فرمادیں۔

حضرت موسیٰ  جب کوہ ِطور پر تشریف لے گئے تو اللہ تعالیٰ کے حضور ان میاں بیوی کی درخواست پیش کی، وہ قبول ہوگئی۔ حالات کچھ اس طرح بن گئے کہ بادشاہ نے لوگوں میں کھانے کی چیزیں تقسیم کیں تو ان دونوں میاں بیوی کو بھی حصہ ملا۔ بیگم نے شوہر سے کہا، میاں جی جو رزق ہمیں ملا ہے یہ دعا قبول ہونے کی علامت ہے، اس کے بعد کچھ پتہ نہیں کیا ہوگا۔

دونوں میاں بیوی نے مشورہ کیا اور پروگرام بنایا کہ ہم یہ رزق اللہ کی مخلوق کو کھلائیں گے، جو بچے گا، وہ کھائیں گے۔ نہیں بچے گااللہ کا شکر ادا کریں گے۔عام لنگر شروع ہوگیا، پہلے دن توکچھ نہیں بچا اور پانی پی کرگزارہ کرلیا۔ دوسرے دن کھرچن سے گزارا کرلیا۔ اس طرح ہوتے ہوتے سینکڑوں آدمی کھانا کھانے لگے۔ جو بچتا تھا اس میں سے دونوں میاں بیوی کھالیتے تھے۔ لنگر میں اتنی برکت ہوئی کہ ہجوم ہوگیا۔

 عرصہ بعد حضرت موسیٰ  کاگزر اس بستی سے ہوا تو انہوں نے لوگوں کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھا ۔ جاکر پوچھا ،یہ لنگر کون کرتا ہے ؟ پہلے توایسا نہیں تھا۔ حضرت موسیٰ  سے ان دونوں نے عرض کیا، یہ آپ کی دعاؤں سے سب کچھ ہورہا ہے۔ ان میاں بیوی نے اپنا تعارف کرایا۔ حضرت موسیٰ   نے جب دیکھاتھا تو دبلے پتلے تھے اب ماشاء اللہ سرخ و سفید اور موٹے ہوگئے تھے۔ بیگم نے حضرت موسیٰ  کو بتایا کہ ہم نے لنگر شروع کیا ہے، جو بچ جاتا ہے ہم کھاتے ہیں لیکن اب اتنا بچ جاتا ہے کہ لوگ لے جاتے ہیں۔

حضرت موسیٰ  جب کوہِ طور پر تشریف لے گئے ، اللہ تعالیٰ سے عرض کیا، یااللہ ان لوگوں نے پورارزق آپ سے مانگا تھا، آپ نے فرمایا تھا، رزق تھوڑا ہے۔ حضرت موسیٰ   نے عرض کیا، تھوڑا رزق اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ ماشاء اللہ لوگوں کا ہجوم کھانا کھاتا ہے، جو بچ جاتاہے، لوگ ساتھ لے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، اے موسیٰ، ان میاں بیوی نے ہمارے ساتھ معاہدہ کرلیا ہے کہ وہ لوگوں کو کھانا کھلائیں گے، جو بچے گا ہم کھائیں گے۔ ہمارے بندے مخلوق کو کھانا کھلارہے ہیں اور ہم دس گنا دے رہے ہیں۔

’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘                  (نومبر               2016ء)

 

Topics


Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02

خواجہ شمس الدین عظیمی


"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور  ماہنامہ  قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل  ہے"


غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.