Khuwaab aur Taabeer
الف، الف، الفورڈ۔ دو قبریں ہیں۔ایک قبر پر سر
رکھے بیٹھی ہوں جو کہ ڈیڈی کی ہے اوردوسری قبر انکل کی ہے۔ ماما قریب کھڑی ہیں۔
پھوپھو نے انکل کی باڈی کو قبر سے باہر نکالا تو دیکھا باڈی کالی اور کتھئی ہے۔
انکل کا قد چھوٹاہوگیا ہے۔ڈیڈی انکل کی طرف کمر کیے ہوئے لیٹے ہیں۔ کروٹ بدلتے ہیں
تو ان کا ہاتھ انکل کی باڈی کو لگااور انکل کے منہ سے بدبودار پانی فوارہ کی طرح
ابل پڑا۔ بدبو کی وجہ سے میں نے منہ پر کپڑا رکھ لیا۔
پھوپھو نے
ڈیڈی کا سر انکل کے سر کے ساتھ لگایاتو انکل آہستہ آہستہ ٹھیک ہونا شروع ہوگئے ۔ ڈیڈی
رورہے ہیں اور وہ بیمار ہوگئے، وہ نہیں چاہتے کہ انہیں انکل کے ساتھ لگایا جائے،
پسینہ سے شرابور ہیں۔ پھوپھو کو ڈیڈی کی کوئی پرواہ نہیں ہے وہ صرف انکل کو صحت
مند کرنا چاہتی ہیں۔ ماما خاموش کھڑی ہیں جب کہ میں پھوپھو کو منع کرتی ہوں مگر وہ
نہیں مانتیں۔
باباجی ، میرے والد زندہ ہیں ان
کو خواب میں اس طرح دیکھنا بہت تکلیف دہ ہے۔ براہِ مہربانی تعبیر سے جلد از
جلدمطلع فرمائیے۔
تعبیر: خواب زندگی کا نصف ہے۔ مطلب یہ
ہے کہ آدھی زندگی بیداری میں اور آدھی عمر خواب میں گزرتی ہے۔ بیداری میں جو عمل کیا
جاتا ہے وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے& خواب میں یہی عمل ٹکڑوں میں تقسیم تو
ہوتاہے لیکن وقت (Time) کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواب میں ہزاروں میل کا سفر
پلک جھپکتے پورا ہوجاتا ہے جب کہ بیداری اسپیس کے ٹکڑوں میں گزرتی ہے& اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے
کہ ٹائم اسپیس ہونے کے باوجود وقت اور اسپیس کی گرفت بظاہر ٹوٹ جاتی ہے لیکن وقت ایسی
اکائی ہے جس کو شعوری طور پر الفاظ میں بیان کرنا مشکل مرحلہ ہے۔
آپ کے دیکھے ہوئے خواب اشارہ کرتے ہیں
کہ مرحوم اعراف کی زندگی میں ناخوش ہیں جب کہ والد صاحب کی زندگی کا طرزِ عمل
ناقابل تعریف ہے۔ خواب اور بیداری کی دنیا بظاہر یکساں نظر آتی ہے اس لئے کہ بندہ
خواب میں جو عمل کرتا ہے بیداری میں وہی عمل اس کی زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی
خطاؤں کو معاف فرمائیں ، سیدھے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا کریں اور اللہ کے
محبوب سیدنا حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی شفاعت نصیب فرمائیں، آمین۔
Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.