Khuwaab aur Taabeer

صف در صف افراد کھڑے ہیں


محمد عاشق، کاکوٹ: صف در صف کچھ افراد کھڑے ہیں جن میں نمایاں شخصیت ایک بزرگ کی ہے۔ ان کا مزار ہمارے علاقے میں ہے۔ بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی وفات ہوچکی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک تخت پر حضور قلندر بابا اولیاؒ کو تشریف فرما دیکھا۔ان کے دونوں طرف دوسری بزرگ ہستیاں موجود ہیں۔ میرے علاقے کے بزرگ بابا صاحبؒ کے بائیں طرف بیٹھے ہیں۔

 تعبیر: زندگی کا تجربہ یہ ہے کہ آدمی پہلے غیب میں ہوتا ہے جس کو عالمِ ارواح کہتے ہیں۔ غیب سے دنیا میں ظاہر ہوتا ہے لیکن دنیا میں آنے کے بعد جسمانی نقطۂ نظر سے استحکام نہیں ہوتا۔ دس دن کا بچہ جب گیارہویں دن میں داخل ہوتا ہے تو دس دن غائب ہو جاتے ہیں۔یہی صورت حال دس سال کی ہے۔ دس سال کی عمر کا بچہ ظاہر ہوتا ہے تو دس سال غیب کے پردے میں چھپ جاتے ہیں اور ہمیں نظر نہیں آتے۔ جب کہ بچہ ہر روز بڑھتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا تخلیقی نظام یہ ہے کہ دو دن میں ایک دن ظاہر ہوتا ہے، ظاہر دن غائب ہو جاتا ہے۔غیب والا دن چھپ جاتا ہے اور ظاہر دن سامنے آ جاتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جس دور میں نشوونما اس طریقے پر ظاہر ہورہی ہیں کہ چھپنا ظاہر ہونا دو زینے کی دو سیڑھیاں ہیں۔ جس سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر چڑھتا ہے، پہلی سیڑھی غائب ہوجاتی ہے۔غیب وشہود کا یہ سلسلہ ہمیں مسلسل تبدیل نظر آتا ہے۔ جب 16 سال کے شب و روز غائب ہوتے ہیں تو اٹھارویں سال میں جوانی آجاتی ہے۔ جوانی گھٹتی بڑھتی ہے اور گھٹنے بڑھنے کا یہ عمل ادھیڑ عمر میں تبدیل ہوتا ہے پھر بڑھاپے میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح آدمی ایک قدم جوانی میں اور دوسرا قدم بڑھاپے میں زندہ رہتا ہے۔

 دنیا میں ظاہر ہونے سے پہلے وہ عالمِ غیب میں موجود تھا۔ جب بڑھاپے کی آخری سیڑھی اترتا ہے تو دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے، اس کو عربی میں انتقال کہتے ہیں۔انتقال کا مطلب ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا ہے یعنی آدمی پیدائش سے پہلے جہاں موجود تھا اس جہان سے منتقل ہوتے ہوتے بالآخر جہاں سے آیا تھا، وہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس کو ہم انتقال یا موت کہتے ہیں۔یہ عمل مسلسل جاری ہے اور جاری رہے گا، جب تک اللہ چاہے۔

 جس دنیا سے ہم آتے ہیں اس کا نام عالمِ ارواح ہے، واپس جہاں جاتے ہیں اس کا نام عالمِ اعرا ف ہے۔ مرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی غائب ہوگیا۔ مرنے جینے کا مطلب ہے کہ جتنے سیکنڈ اور منٹ کی زندگی الاٹ ہوتی ہے وہ دنیا میں منتقل ہوکر پوری کرتا ہے۔

عالمِ اعراف ہماری دنیا کی طرح ہے۔ وہاں لوگ رہتے ہیں، شہر ہے، گھر ہے، کھانا پینا ہے لیکن جس طرح پیدائش سے پہلے وہ زمین پر نظر نہیں آتے اسی طرح مرنے کے بعد بھی وہ زمین پر نظر نہیں آتے۔ جب کہ صاحبِ شہود لوگ یعنی اولیاءاللہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ایک دوسرے کی قربت انہیں پسند ہے۔

 آپ نے دو بزرگوں کو دیکھا۔ یہ دونوں بزرگ اس دنیا سے جسے عالم ِ ناسوت کہا جاتا ہے، جب منتقل ہوئے تو عالمِ اعراف میں چلے گئے۔ جب کوئی عالمِ اعراف میں رہتے ہوئے دنیا والوں کو نظر آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہر آدمی کے اندر مرنے کے بعد ملاقات کرنے کی صلاحیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر شے اللہ کی طرف سے ہے اوراللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔

’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘ (اپریل 2021ء)

Topics


Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02

خواجہ شمس الدین عظیمی


"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور  ماہنامہ  قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل  ہے"


غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.