Khuwaab aur Taabeer
سندس مرزا۔ کسی پہاڑی علاقہ میں شاپنگ کررہی ہوں، ماحول خوش گوار ہے۔پھر دیکھا
بھائی کے سر میں دانوں میں پس پڑا ہے جن کو گن رہی ہوں۔ میں سمجھ رہی تھی کہ دو تین
دانے ہوں گے جب کہ وہ کافی زیادہ اور بڑے ہیں۔ پھر دیکھا چھوٹے بھائی کے ساتھ شاپنگ
کرکے پیسے دینے کی لائن میں کھڑی ہوں اور بلیوں کتوں کے بارے میں بات ہورہی ہے کہ بلیوں
کے بال جھڑتے ہیں۔ سامنے ہلکا نیلاٹی سیٹ رکھا ہے ۔ پھر دیکھا کسی حبشی سے میری شادی
ہوئی اور دو بچے ہیں جو اپنے والد کی طرح ہیں۔مجھے بہت افسوس ہے کہ بچے میرے گھروالوں
جیسے نہیں ۔مسلسل سوچتی رہی کہ میری سہیلی کے بچے کتنے خوب صورت ہیں ۔پھردیکھا اپنی
بلی کے ساتھ راہ داری میں کھڑی سہیلی سے باتیں کررہی ہوں کہ کوئی ناراضی کا اظہار کرتا
ہے کہ تم لوگ ہمیشہ اسی جگہ ہوتے ہو۔وہاں ایک لفٹ بھی نظر آئی۔
تعبیر : جس مقصد کے لئے استخارہ کیا گیا ہے اس خواب میں واضح جواب نہیں بلکہ
ذہنی پر یشانی کے خاکے ہیں ۔ دنیا میں آدمی آتا ہے تو صاف ستھرا اور ذہن سفید کاغذ
کی طر ح ہو تا ہے ۔ جب اس کا غذ پر دنیا کی چھاپ پڑتی ہے تو زندگی مسائل بن جا تی ہے
اور آدمی سب کچھ دنیا کو سمجھ کر دنیا پر فریفتہ ہو جا تا ہے ایسے میں اس کے شعور پر
جو پر نٹ بنتا ہے اس میں سکون نہیں ہو تا ۔ زندگی شکوک و شبہات اور وسوسوں کا البم
بن جا تی ہے ۔ یہ چاہنا کہ ہما ری انفرادی زندگی مثالی بن جا ئے، بہترین گھر ، عمدہ
نفیس لباس ، پیسے کی ریل پیل ،امارت سے محبت —دنیا دار آدمی کا دل چاہتا ہے کہ وہ دنیا
کی ساری دولت سمیٹ لے لیکن اسے کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ جب آدمی پیدا ہو تا ہے لباس
کی ایک دھجی جسم پر نہیں ہوتی ۔د وسرے لوگ ستر پو شی کر دیتے ہیں۔ کروڑوں روپے بیلنس
کر کے مرجاتا ہے لیکن جو لباس پہنا ہوا ہے اس کو اتارا نہیں جا تا قینچی سے کاٹ دیا
جا تا ہے اور دو چادریں اس کا دنیا میں آخری سہارا ہو تا ہے اور یہ سہارا بھی عزیز
رشتہ دار اگر نہیں دیں تو گورنمنٹ انتظام کردیتی ہے ۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر
کہتا ہے :
کتنا ہے بدنصیب
ظفر دفن کے لئے
دو گز زمین
بھی نہ ملی کوئے یار میں
Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.