Khuwaab aur Taabeer

زیارت حضرت ابراہیم خلیل ا للہؑ


نصرت گیلانی، (لاہور)۔ میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ میں بیٹھی ہوئی ہوں ۔ میں حج کے غرض سے مکہ آئی ہوئی ہوں ۔خانہ کعبہ اندر ہے اور میں باہر برآمدے میں چٹائی پر بیٹھی ہوئی ہوں ۔میرا منہ مغرب کی طرف ہے اور مشرق دیوار جس کے ساتھ میں ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی ہوں۔ خانہ کعبہ میں جانے کےلئےدروازہ ہے میں بہت افسردہ بیٹھی ہوئی ہوں ۔بر آمدے میں ہلچل سی ہوتی ہے۔ لوگ اندر جانےکےلئےتیار ہیں ۔ میں بھی جلدی سے کھڑی ہوتی ہوں۔ دروازے والی دیوار کو چومتی ہوں۔ پھر جلدی سے دروازہ پار کر کے اندر چلی جاتی ہوں۔ دیکھتی ہوں کہ ایک کمرہ ہے بہت خوبصورت ۔ اس کمرے کی چھت نہیں ہے ۔ آسمان نظر آتا ہے وہاں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی قبر مبارک ہے ۔میں ان کی پائنتی کی طرف بیٹھ جاتی ہوں اور رونا شروع کر دیتی ہوں۔ میں آہستہ آہستہ سسکیاں لے کر روتی ہوں ۔ دل میں سوچتی ہوں کہ آنحضرت ؐنے فرمایا کہ بلند آواز سےرونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ میں دل میں کہتی ہوں۔ دیکھیٔے میں آپ کی اولاد ہوں ۔ کس مصیبت میں گرفتار ہوں۔ دعا کرتی ہوں تو دعا بھی قبول نہیں ہوتی ۔ میرے حق میں دعا کیجئےلوگ حج کےلئےآ ئےہیں میری قسمت میں حج بھی نہیں ہے میں روتی رہتی ہوں ۔اسی ا ثناء میں بہت خوبصورت سرخ چادر جس پر گوٹہ کناری لگا ہوا ہے ۔ جیسے شادی کے موقع پر دلہن کا دوپٹہ سجا ہوتا ہے بالکل ویسا ہی دوپٹہ میرے سر پر خود بخود کہیں سے اڑ کر آ جاتا ہے ۔ بڑی ترتیب سے۔ میں گھونگھٹ نکالے ابھی بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پائتنی کی طرف بیٹھی ہوئی ہوں کافی دیر ہو جاتی ہے۔ دوپٹہ میرے سر پر ہے سب لوگ آہستہ آہستہ اکٹھے ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گھنٹی کیوں نہیں بج رہی۔ کیا ہوا ہے ۔ یہ دوپٹہ تو صرف چند سیکنڈ ہی کسی کے سر پر رہتا ہے۔ یہاںکیا ہوگیا ہےہوتاہے کہ یہ دوپٹہ پہلے چند آدمیوں کے سر پر جاتا ہے گھنٹی بجتی ہے اور پھر دوپٹہ دوسرے آدمی کے سر پر جاتا ہے چند آدمیوں کے بعد میری باری آتی ہے اب دوسرے لوگ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں اور دوپٹہ میرے سر پر سے نہیں اٹھ رہا۔ اسوقت مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ یہاں زمین اور آسمان مل رہے ۔ بہت تھوڑا یعنی دو تین گز کا فاصلہ ہے مجھے یوں لگ رہا ہے کہ میرا پیارا رب میرا پروردگار مجھے دیکھ رہا ہے اور اس کے نور کا ہالہ مجھے گھیرے ہو ئےہیں۔ اس وقت مجھے یوں لگا کہ میں اندر سے بالکل خالی ہوں۔اس کا نور میرے جسم پر پڑ رہا تھا۔ اور میری نظر اپنے گناہ گار جسم پر۔میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے جسم کا اندرونی حصہ دیکھا۔جب اندر جھانکا تو یوں نظر آیا کہ نہ پھیپھڑے ہیں۔نہ معدہ نہ آنتیں نہ غلاظت ۔صرف دل ہے اور باقی روشنی صرف روشنی،لوگوں کی باتیں سن کر میں آنکھیں کھول کر دیکھتی ہوں۔میرے بالکل سامنے ایک اور بڑا خوبصورت کمرہ ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر مبارک کی سیدھ میں۔اس میں ایک(CHIPS)کی حوضی سی بنی ہوئی ہے اسمیں حجر اسود پڑا ہوا ہے۔دل کی شکل کا ملائم کالا اورسفید پتھر۔میں حجرِاسود کی طرف دیکھتی ہوں۔وہ پتھر مجھ سے ملنے کےلئےبڑی بے چینی سے پہلو بدل رہا ہے۔میں پتھر کو کہتی ہوں ابھی آتی ہوں ایک آدمی جو میری دائیں طرف بیٹھا ہوا ہے۔اسی کمرے میں سے ایک اسکرین نما چیز کو ہاتھ سے اشارہ کر کے بلاتا ہے اس میں سے نور کا شعلہ سا نکلتا ہے اور پھر ایک لکیر کی صورت میں اس تک آتا ہے بالکل ایسے جیسے آسمان پر شہاب ثاقب۔ وہ اسکرین اپنی جگہ سے ہلنے لگتی ہے اس وقت میں ہاتھ کھڑا کرکے رکنے کےلئےکہتی ہوں۔تو وہ وہیں اپنی جگہ پر رک جاتا ہے پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر کا اوپر والا حصہ بڑی آہستگی سے علیحدہ ہو کر بالکل ساتھ ہی رکھ دیا جاتا ہے سب لوگ سجدے میں چلے جاتے ہیں میں جب دیکھتی ہوں کہ سب لوگ سجدے میں چلے گ ئےہیں تو میں بھی وہیں بیٹھی بیٹھی سجدے میں چلی جاتی ہوں۔پھر میں سوچتی ہوں کہ میں طواف کےلئےسات چکر لگا لوں،پھر سوچتی ہوں کہ حضرت رسول اللہ نے فرمایا کہ حج خاص تاریخ کو ہی ہوتا ہے۔اس وقت مجھے آواز آتی ہے کہ۲۶ تاریخ کو تم حج کرو گی ۔

تعبیر:خواب میں اس نسبت کا انکشاف ہوا ہے۔جس نسبت سے کوئی بندہ اللہ تعالیٰ ٰ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔کثرت سے درود شریف پڑھیں اور عارف باللہ ہونے کے جذبہ کے ساتھ مہینے میں تین روزے رکھیں اور مراقبہ کیا کریں خواب میں بشارت دی گئی ہے کہ ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔

’’روحانی ڈائجسٹ ‘‘(فروری83ء)

Topics


Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02

خواجہ شمس الدین عظیمی


"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور  ماہنامہ  قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل  ہے"


غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.