Khuwaab aur Taabeer
فوزیہ وامق، کراچی۔ بھائی اور ابو کے ساتھ قبرستان میں ہوں۔ ابو جس قبر کے
قریب ہیں، وہ امی کی ہے، میں اور بھائی جس قبر کے پاس ہیں، وہ خالہ کی ہے۔ میں نے
خالہ کی قبر میں جھانکا تو وہ سیاہ رنگ کی تھی۔ تیزی سے امی کی قبر کی طرف بڑھی، وہ
سورہی تھیں۔ خوفزدہ ہوکر بھائی اور ابو کو دیکھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ اتنے میں
خالہ کی قبر سے بدبو آنے لگی۔ میں نے اور بھائی نے قرآنی آیات کا ورد شروع کیا تو
بدبوختم ہوگئی اور خالہ کے رونے کی آواز آئی۔ رونے کی آواز سن کر ہمیں تکلیف پہنچی
— میری آنکھ کھل گئی۔
الحمدللہ میری والدہ حیات ہیں جب کہ خالہ کا
انتقال ہوچکا ہے ۔
تعبیر: خواب نصف زندگی ہے۔ زندگی نصف بیداری میں اور نصف خواب
میں گزرتی ہے۔ بیداری میں کیا گیا عمل اسپیس میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ خواب میں بھی
اسپیس ہے اور وہاں انجام دیا گیا عمل بھی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے لیکن وقت کی
گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواب میں میلوں میل کا سفر ناقابل ِ بیان وقت میں
پورا ہوتا ہے اور وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا جب کہ بیداری اسپیس کے ٹکڑوں میں
وقت کی بندش کے ساتھ گزرتی ہے۔خواب میں زمینی وقت اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے
لیکن خواب کے زون کا وقت اور اسپیس موجود رہتی ہے۔
مرحومہ خالہ وہاں
ناخوش ہیں اور عالم ِ ناسوت میں جس طرح سے زندگی انہوں نے گزاری ہے اسے یاد کرکے
افسوس کرتی ہیں اور روتی ہیں۔ ان کو ایصال ِ ثواب کی ضرورت ہے۔
آپ کی والدہ کی زندگی صراطِ مستقیم پر قائم ہے، وہ نماز روزے کی پابند ہیں،
غیبت اور دل آزاری نہیں کرتیں، زندگی کے تقاضوں کو دین کے احکامات کی روشنی میں
پورا کرتی ہیں۔ دعا ہے کہ ہم سب صراطِ مستقیم پر گامزن رہیں اور دل آزاری سے گریز
کریں، آمین۔
خواب اور بیداری کی دنیا الگ نہیں ہے۔ جو عمل بیداری میں
انجام دیا جاتا ہے، وہ خواب میں ظاہر ہوتا ہے اور جو عمل خواب میں انجام دیا جاتا
ہے، وہ بیداری کی زندگی کا عکس ہے۔
Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.