Khuwaab aur Taabeer
رخسانہ، واہ کینٹ۔
تعبیر: آدمی اور انسان دو الگ الگ یونٹ ہیں۔ آدمی میں سڑاند اور تعفن غالب ہے
اور انسان احسن تقویم ہے جو نورانی لہروں سے مرکب ہے۔یہ حقیقت آسمانی کتابوں اور
آخری الہامی کتاب قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ انسان اور آدمی
دراصل دو پرت ہیں۔ ایک پرت اسفل ہے اور دوسرا نور ہے۔ یہ بات بھی قرآن کریم میں تیسویں
(30) پارے میں بیان ہوئی ہے۔
اللہ کی
تخلیق میں ہر شے کی بنیاد نور ہے اور شے کا مادی نظام ایسی روشنی ہے جس میں ثقلGravity اور سڑاند ہے۔اس بات کو اس طرح بیان کیا
جاسکتا ہے کہ آدمی دو یونٹ کا مجموعہ ہے، ایک اسفل اسافلین اور دوسرا احسن تقویم۔
اسفل السافلین میں اسپیس کی پابندی ہے اور احسن تقویم اسپیس کی پابندی کے باوجود
آزاد ہے۔ آزاد ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ ٹائم اور اسپیس کی گرفت سے نکل جاتا ہے۔
ایک آدمی کو آفس میں گھر کا خیال آتا ہے تو ذہن میں گھر کی تصویر بن جاتی ہے
اور وہ خیال کے ذریعے سفر کرکے گھر پہنچ جاتا ہے۔ جیسے ہی توجہ ہٹتی ہے گھر نظروں
سے دور ہوجاتا ہے اور بندہ آفس کے کاموں میں مشغول ہوجاتا ہے۔ اسی طرح روحانی
صلاحیت کے حامل افراد جب کسی مقام کا تصور کرتے ہیں تو وہ خود کو اس مقام پر ظاہر
کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اسپیس سے آزاد ہوجاتے ہیں جبکہ ان کے پاس موجود دیگر
لوگ اسی طرح وقت اور اسپیس کے پابند رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ
کے ارشاد کے مطابق زمین و آسمان کی ہر مخلوق اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ موجودہ
تحقیق کے مطابق زمین پر موجود ہر شے دوسری شے سے متاثر بھی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ
کائنات کی ہر شے ایک دوسرے سے متعارف ہے۔ آپ نے درخت سے باتیں کیں درخت نے آپ سے
باتیں کیں۔ دراصل گفتگو کا یہ طریقہ شعور سے ماورا صلاحیت سے ہوتا ہے۔ شعور سے
ماورا صلاحیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شعور اس سے واقف نہیں ہے۔ درخت سے آپ کی سلام
دعا اس لیے ہوئی کہ آپ کے اندر انسانی صلاحیت بیدار اور متحرک ہوگئی اور یہ صلاحیت
عام طور سے صوفیا میں ہوتی ہے۔
مشورہ:
اگر آپ اس صلاحیت کو بیدار کرنا چاہیں تو کامیابی ہوسکتی ہے۔ کوشش کریں کہ روحانی
لٹریچر پڑھیں اور اپنی دوستوں سے زیادہ بات روحانیت سے متعلق کریں۔ کوئی متوجہ
ہونہ ہو آپ یہ عمل جاری رکھیں۔
Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.