Topics
ع س ، کوئٹہ ۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ
حضور پر نور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں دروازے پر گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کپڑے کے
تھان دیئے جو مختلف رنگ کے تھے۔ میرے دل میں وسوسہ آیا کہ شیطان ہے۔ مجھے ورغلا
رہا ہے، بھلا میری ایسی قسمت کہاں ہے۔ میں تھان لے لیتی ہوں یا نہیں یہ یاد نہیں
رہا۔
اس خواب کے کچھ عرصے بعد میں نے یہ خواب
دیکھا کہ ایک سفید ریش نورانی بزرگ جن کی پگڑی اور لباس بھی سفید ہے، تشریف لاتے
ہیں میں ان سے التجا کرتی ہوں کہ آپ میرے لئے دعا کریں کہ میں اچھی ہو جاؤ ں اور
نیک لڑکی بنوں، کامیاب رہوں۔ وہ فرماتے ہیں، ’’تیری نیکی، اچھائی، کامیابی تیری
پانچ وقت کی نماز میں ہے۔ نماز سے تیری ہر مراد پوری ہو گی۔‘‘
ایک ہاتھی ہے۔ کچھ لوگ ہیں۔ میں اور میرا
بھائی بھی کھڑے ہیں۔ لوگ ہاتھی کی ران سے گوشت کاٹ کر ہمیں دیتے ہیں کہ یہ تم لو۔
اس کے بعد دیکھتی ہوں، نہ ہاتھی ہے اور نہ لوگ ۔ ایک بڑا میدان ہے جس میں گتے کا
سبز رنگ گنبد ہے جس کے چار ستون ہیں۔ سفید رنگ کے اس گنبد کے قریب میں اور میرا
بھائی کھڑے ہیں۔ گنبد چھوٹا سا ہے۔ اس میں صرف ایک آدمی آ سکتا ہے۔ اس میں ایک شخص
کھڑا ہے جس کا رنگ سانولا ہے جسم پر صرف ایک لنگوٹ ہے۔ سر اور ریش کے بال سیاہ
ہیں۔ میرا بھائی جھک کر عقیدت سے ان کا ہاتھ چومتا ہے۔ میرے دل میں اچانک خیال آتا
ہے یہ غوث پاکؒ ہیں اور میں جاگ جاتی ہوں۔
تعبیر :ا ٓپ کو بزرگان عظام اور اولیائے کرام سے عقیدت ہے لیکن
طرز فکر پیچیدہ ہے۔ آپ کو اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دینے کا شوق بھی ہے۔
اولیاء اللہ سے فیض حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان کی طرز فکر آدمی کے اندر
مستحکم ہو۔ یہی بات بزرگ نے آپ کو بتائی ہے۔ نماز بجائے خود ایک طرز فکر ہے جو
بندے کو اللہ سے اور اللہ کے دوستوں سے قریب کر دیتی ہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد
ہے کہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ جس نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو
خواب میں دیکھا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت سے مشرف ہوا۔ لیکن اگر طرز فکر
ناقص ہے تو وسوسہ آ سکتا ہے۔ جس سے آدمی شک میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.