Topics
انیلا
انجم، کراسنگ۔ کوئی عورت اونٹنی کا دودھ بیچ رہی ہے جسے میں برتن دیتی ہوں تو وہ
اونٹنی کو دوہنا شروع کرکے برتن بھر دیتی ہے۔ میں حیران ہوں کہ اونٹنی کے دودھ کا
کیا کروں گی۔ اونٹنی مزہ سے جامن کے نرم پتے کھارہی ہے۔ میں نے جھانکا کہ واقعی
اونٹنی کا دودھ ہے تو ایک تھن بھراہوا نظر آیا جب کہ دوسرے میں سے مجھے دیا گیا تھا۔ میں برتن لے کرگھر آئی تو
وہ عورت پیچھے پیچھے آگئی اور بولی پانچ سو روپے دو۔ میں نے پوچھا، کس بات کے؟ وہ
بولی، دودھ کے۔ میں نے کہا، مجھے دودھ نہیں چاہئے تھا تم نے خود دیا ہے اور اب پیسے
مانگ رہی ہو۔ اونٹنی کا دودھ تو تین یا ساڑھے تین سو روپے کاہے یہ ڈیڑھ سو کس چیز
کے ہیں؟وہ بولی، یہ باباجی کے ہیں۔میں نے مسکراکرکہا، اچھا میں دیتی ہوں ۔ خیال آیا
اونٹنی جنت میں سب سے پہلے جائے گی۔
اکثر
خواب یاد نہیں رہتے لیکن یہ اتنا واضح تھا کہ جیسے جاگتے میں دیکھا۔ براہ مہربانی
اس کی تعبیر بتاکرمیری بے چینی دور فرمادیجئے۔
تعبیر: ہم سب کو اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا
کرنا چاہئے۔ پیٹ میں غذا کے اہتمام کے علاوہ ایام رضاعت میں بچہ کے لئے ماں کا
دودھ ،ماں کے دل میں مامتا ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں، ماں خود گیلے میں سوتی ہے بچہ
کو سوکھے میں سلاتی ہے اور ماں بچہ کی ہر ضرورت پوری کرتی ہے اور یہ سب اس لئے ہے
کہ اللہ تعالی نے ماں کے دل میں بچہ کی مامتا بھر دی ہے ۔ زندگی کے بارے میں سوچتے
ہیں،مخلوق کا کھانا پینا، آنکھیں ، جسم میں خون کی ترسیل ، کھانے پینے کی لاشمار
اشیا ، پیاس بجھانے کے لئے پانی ، گرمی سردی سے بچاؤ کے لئے اہتمام ، ماں باپ کی
شکل میں اللہ کی رحمت کا ظہور، سونا جاگنا ، کھانا پینا ، ایک دن کی عمر میں اضافہ
ہوکر60سال کی عمر کا ہونا۔ اگر غور کیا جائے تو زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی رحمت سے feedہورہا ہے لیکن ہر آدمی جب اپنی حالت پر غور کرتا ہے تو
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا جس کی وجہ سے وہ زندہ، متحرک اور چلتا پھرتا ہے ،اس کا
شکر ادا کرنا نظر نہیں آتا۔ ہر شخص یہ بھی جانتا ہے کہ زندگی اور موت کا چولی
دامن کا ساتھ ہے ۔ بچہ کی زندگی کا ایک دن پردہ میں نہ چھپے تو بچہ دو دن کا نہیں
ہوتا اور مہینہ غیب میں منتقل نہ ہو تو
بچہ کی عمر میں مزید ایک دن کا اضافہ نہیں ہوتا۔ کھانا پینا، سونا جاگنا ، شادی بیاہ،
اولاد، دنیا کے تمام لوازمات 60 سال تک مسلسل منتقل ہوتے رہتے ہیں جس کی ترتیب کو
ہم عمر سے تشبیہ دیتے ہیں۔
اونٹنی کا دودھ خواب میں بطور استعارہ بیان ہوا
ہے ۔ اور پیسہ کا لین دین اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہم اللہ کی نعمتوں کو استعمال
کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن دینے والے رازق کا زبانی شکر بھی ادا نہیں کرتے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائیں کہ ہم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو خوش ہوکر
استعمال کریںاور اللہ کا شکر ادا کریں۔ قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد ہے،
’’
اے آل داؤد ؑ ! شکر کرو ، میرے بندوں میں
کم ہیں شکر والے ۔‘‘ ( سبا: ۱۳)
Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.