Topics
کراچی: اللہ کے ایک دوست کا دیدار
ہوا جن کے قریب میرے کچھ جاننے والے موجود ہیں۔ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ میرے قریبی
افراد کی بزرگ سے قربت بڑھ رہی ہے۔ میں دوسرے کمرے سے یہ سب دیکھ رہی ہوں۔ بزرگ کی نظر مجھ پر پڑی۔ پھر دیکھا کہ چند
سہیلیوں کے ساتھ ان کے سامنے با ادب بیٹھی
ہوں۔ وہ فرماتے ہیں، جی بتائیے۔ پہلے سوچتی ہوں کہ کیا کہوں۔ پھر عرض کرتی ہوں،
حضرت! ذہن میں کوئی سوال نہیں ہے کہ آپ سے
کچھ پوچھوں۔یہ سن کر انہوں نے فرمایا، میں نے سوال پوچھنے کے لئے تو نہیں کہا۔
تعبیر:آپ کے ذہن میں بہت ساری چیزیں آتی ہیں جن میں آپ الجھ جاتی ہیں۔ خیال آتے
رہتے ہیں، گزر جاتے ہیں، توجہ دوسری طرف کردیجئے۔ دماغ ایسی مشین ہے جو ہمہ وقت چلتی رہتی ہے۔ اگر اس میں وقفہ
ہوجائے تو پھرآدمی ذہنی طور پر پریشان ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ گھر میں بلب جل رہا ہے۔ روشنی ہورہی ہے۔ کچھ دیر بعد
کرنٹ نہیں آتا ۔جیسے ہی کرنٹ کا آنا بند ہوگا تو وقتی طور پر خیالات کا آنا بھی بند ہو جائے گا۔ اگر خیالات کے
ہجوم میں یہ تلاش کریں کہ یہ خیال کیوں
آیا تو اس سے متعلق ایک رَو چل پڑے گی۔ دماغ ایک مشین ہے جو کرنٹ سے
چلتی ہے اور کرنٹ ہمہ وقت دَور
کرتا ہے ۔ کرنٹ کا دورانیہ رک جائے تو بلب فیوز ہوجائے گا یعنی مرجائے گا ۔
آپ کے دماغ کے سیلز (خلیات) ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں جب کہ سب کے ساتھ یہی ہوتا
ہے لیکن اس میں یہ فرق ہے کہ بجلی
کے ایک تار میں دس بلب لگے ہوتے ہیں جو روشن ہیں۔ بلب کی روشنی میں چوں کہ کرنٹ زیادہ ہے اسی لئے بلب گرم ہوجاتا
ہے ۔گرمی زیادہ ہوتو بلب پھٹ جاتا ہے۔کبھی
بکری کا بھیجا دیکھئے ۔ اس میں آپ کو یونٹ
نظر آئیں گے ۔ ان یونٹس میں مسلسل رَو چلتی ہے ۔
آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ کسی وقت آپ کے
دماغ کی رَو میں منفی خیالات کا
ہجوم رہتا ہے اور موجودہ صورتِ حال یہ ہے
کہ منفی خیالات کا کرنٹ آپ کے دماغ کے
اندر بلب
کو کبھی روشن کر دیتا ہے اورکبھی
بلب فیوز ہوجاتا ہے۔ چوں کہ بلب موجود ہوتا ہے
اس لئے یہ سلسلہ دوبارہ شروع
ہوجاتا ہے۔ آپ کو چاہئے کہ سیرتِ طیبہؐ کا
مطالعہ کریں،نماز روزے کی پابندی کریں اور ترجمے کے ساتھ قرآن کریم کا مطالعہ
کریں۔
Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.