Topics
سیدہ فرح ،بہاولپور۔رات
کو سب گھر والے صحن میں کھڑے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ چاند اتنا بڑا تھا جیسے گھر
کے قریب آگیاہو۔ پھر اس پر کالا اور لال رنگ غالب ہونے لگا جیسے گرہن لگ رہا ہے۔ ہم
لوگوں نے پہلی بار چاند گرہن دیکھا اس لئے خوش ہوکر ایک دوسرے کو دکھارہے ہیں۔ کافی
دیر بعد یہ سلسلہ ختم ہوا۔ پھرچاند آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف جانے لگا اور تھوڑی دور
بعد جیسے عام حالات میں آسمان پر نظر آتا ہے، ویسا نظر آیا۔
تعبیر
: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ یہاں جو کچھ ہے وہ اچھائی کا پہلو ہو
یا برائی کا ، ازل تاابد ریکارڈ(فلم ) ہے ۔
ہم جو کچھ دیکھتے
ہیں، اس ریکارڈسے باہر ایک ہستی کے علاوہ کوئی شے نہیں ہے اس لئے ہمیں کچھ نظر نہیں
آتا۔آسمان ستاروں کی بارات ہے۔ اگر ہم آنکھ بند کرلیں تو ہمیں ستارے نظر نہیں آتے ۔
آنکھ بند ہو نے کا مطلب آنکھ میں ایک گول دائرہ ہے۔ اس گول دائرے میں عکس منتقل ہوا
۔ جب ہم آنکھیں بند کرتے ہیں تو ایک کیمرے کا شیشہ چھوٹا، اس میں ایک سوراخ ہے اور
وہ سوراخ ایسی چمک دار شے سے ڈھکا ہوا ہے کہ اس کے اندر نظر نہیں آتا۔ لیکن جب ہم آنکھوں
میں رنگ لگاتے اور پپوٹے کھولتے بند کر تے ہیں تو ہمیں وہ تل نظر آتا ہے اور اس تل
میں ہمیں آسمان ، پرندے اور اللہ کی دوسری تخلیق نظر آتی ہے۔
اب ضرورت پیش آتی ہے کہ جو چیزیں موجود ہیں ان کا علم ہو نا ضروری ہے ۔ گھر
میں لوگ چاند،سورج، ستارے، آسمان وغیرہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ بچے یہ گفتگو سنتے
ہیں اور سننے کے بعد اندر کی حس انہیں متوجہ کرتی ہے کہ آنکھیں کھول کر دیکھو۔ جب پلک
جھپکتی ہے تو خود بچے کی تصویر اور جو کچھ ماحول میں ہے وہ سارے مناظر اس چھوٹے سے
تل میں عکس ریز ہوتے ہیں یعنی اس میں نظر آتے ہیں ۔ دماغ کے اندر مختلف شعبوں سے گزر
کر ہمیں نظر آتا ہے۔ اگر اس صورت کے بارے میں پہلے سے علم نہ ہو توکچھ نظر نہیں آتا
— بچہ، بڑا،کم عقل ، عقل مند کوئی فرد یہ نہیں کہتا کہ میں اسے پہچانتا ہوں ۔ اس کے
لئے ضروری ہے کہ جب تل میں عکس بنے توبتانے والا بتائے کہ یہ فلاں چیز ہے ۔
اس تمہید کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے اندر ایسی مشینری اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی
ہے جس میں آنکھ کے تل کے ذریعے عکس منتقل ہو تا ہے اور ذہن اس عکس کو قبول کرکے آنکھوں
سے دیکھتا ہے ۔ لیکن اگر اس چیز کے بارے میں معلومات نہ ہوں تو پھر یہ بات قابل تذکرہ
نہیں ہے کہ یہ چیز کیا ہے ۔ یہ ایک مسلسل میکانزم ہے جو زندہ آدمی کے دماغ میں جاری
ہے یعنی ایک چھوٹا سا تل عکس کو قبول کر تا ہے اور معنی پہناتا ہے۔ معنی پہنانا اس
وقت ممکن ہے جب ہمیں وہ نظر آئے۔
انکشاف ہوتا ہے کہ آپ نے چاند گرہن کے بارے میں کچھ سنا ہے اور وہ عکس خواب میں
آنکھ کے سامنے آگیا ۔
Aap ke Khwab aur unki tabeer jild 02
خواجہ شمس الدین عظیمی
"مذکورہ مسودہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور میں شائع شدہ خواب اور تعبیر ،مشورے اور تجزیوں پر مشتمل ہے"
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل دیکھے بغیر نہیں ہوتی۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا علم نہ ہو دیکھ کر بھی ہمارے اوپر یقین کی دنیا روشن نہیں ہوتی۔سب درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو درخت کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتے.