Topics

یہ شادی ہو گی یا نہیں؟

سوال:  میں ایک غیر شادی شدہ لڑکی ہوں جب کہ میری ہم عمر لڑکیاں کئی کئی بچوں کی مائیں ہیں۔ خونی رشتہ کے ایک قریبی بھائی سے منگنی ہوئے سالوں گزر گئے ہیں۔ مگر سوتیلی والدہ کی ریشہ دوانیوں سے یہ رشتہ مضبوط بندھن میں اب تک نہیں آیا ہے۔ میں آپ سے یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ شادی ہو گی یا نہیں؟ اور میں آخر کب تک سراب کے پیچھے دوڑتی رہوں گی۔ خاندانی جھگڑے بظاہر ختم ہوتے نظر نہیں آتے۔ اگر کسی آیت یا عمل کے ذریعہ یہ شادی ہو سکتی تو براہ کرم مجھے بتائیں۔ میں پورے یقین کے ساتھ کروں گی۔

جواب: کل کیا ہو گا اس کا صحیح علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت بھی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔ میں نے آپ کے لئے استخارہ کیا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شادی نہیں ہو سکے گی۔ آپس میں اس قدر غلط فہمیاں پیدا ہو چکی ہیں جن کا تدارک محال نظر آتا ہے اور پھر خاندانی وقار بھی آڑے آ رہا ہے اور آتا رہے گا لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہیں وہ جب چاہیں اور جو چاہیں کر سکتے ہیں ہر نماز کے بعد ایک سو ایک مرتبہاِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَءٍی قَدِیْرُ پڑھ کر دعا کریں۔ دعا میں اتنی طاقت ہے کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ دعا ہی ایک ایسا واسطہ ہے جس میں خالق اور مخلوق کا براہ راست رابطہ قائم ہوتا ہے۔ اس میں نیکو کار ور گناہ گار کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ دعا میں سب برابر ہیں۔ بس شرط یقین اور ایمان کی ہے۔

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س