Topics

وٹہ سٹہ کی پریشانی

سوال:  آپ کی خدمت میں چند گزارشات لے کر حاضر ہو رہی ہوں۔ میں اس وقت سختی پریشان، مجبور اور بے بس ہوں۔ اس لئے آپ مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتائیں جس سے میرے حالات سدھر جائیں جو کسی طرح سلجھتے ہوئے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ بہت سوچ وبچار کے بعد اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگ مانگ کر آخر آج آپ کو یہ سب کچھ لکھنے پر مجبور ہو گئی ہوں۔ ویسے تو اللہ تبارک تعالیٰ دعائیں سنتے ہیں۔ میں مایوس نہیں ہوں۔ میری بھی اللہ جل شانہ ضرور سنیں گے۔ میں جو اس وقت بہت زیادہ پریشان، مجبور ہو گئی ہوں۔ بے سہارا بھی کہہ لیں۔ لیکن فی الحال میرے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، میں اس سے سخت تنگ اور عاجز آ گئی ہوں۔ شاید یہ اللہ تعالیٰ کا امتحان ہے۔ مجھے صبر سے کام لینا چاہئے۔ شاید اللہ کوئی بہتری کر دے۔ لیکن دراصل میں نے اپنی 29سالہ زندگی میں غم ہی غم دیکھے ہیں۔ خوشیاں بہت کم مجھے ملی ہیں۔ اس لئے اب میں مایوس اور بہت زیادہ تنگ ہوں۔ مجھ سے اب یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوتا۔ یں تو اس آس پر جی رہی ہوں کہ دکھ کے بعد سکھ ضرور آتا ہے۔ لیکن سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ میری داستان غم بہت لمبی ہے۔ لیکن میں کوشش کروں گی کہ اسے زیادہ لمبا نہ ہونے دوں۔ محترم عظیمی صاحب! میں جب پیدا ہوئی تو میرے باپ کو بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے بے تحاشہ لاڈ پیار کیا۔ لیکن اس لاڈ پیار اور شفقت کی عمر بہت کم نکلی۔ یعنی ایک سال تین ماہ اس کے بعد میری بدنصیبی کا دور شروع ہوا جو آج تک ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ جی ہاں میں باپ کی شفقت سے محروم کر دی گئی ہوں۔ میں کراچی شہر میں پیدا ہوئی تھی اور میرے والد زندہ ہیں اور کراچی میں ہی رہتے ہیں۔ لیکن میں نے آج تک انہیں نہیں دیکھا۔ مجھ جیسا بھی کوئی بدنصیب ہو گا۔ اب تو ویسے انہیں دیکھنے کی تمنا بھی نہیں رہی کیونکہ آج میں خود اس اسٹیج پر ہوں یعنی تین بچوں کی ماں ہوں۔ سوچتی ہوں کہ اگر آج میرا باپ میرے سر پر ہوتا تو شاید یہ حالات نہ ہوتے۔ میری امی کی شادی وٹہ سٹہ کی شادی تھی۔ میری امی جان کو گھر سے نکال دیا حالانکہ ان کی اپنی بیٹی اپنے گھر ہے اور بس رہی ہے اور میرے والد نے ادھر آنا ہی چھوڑ دیا۔ میری ماں صبر و شکر کر کے مجھے لے کر بیٹھ گئیں اور مجھے پالنا شروع کر دیا۔ میں نے میٹرک کے بعد دستکاری کا امتحان پاس کر لیا اس کے بعد پرائیویٹ انگلش سکول میں ملازمت کر لی ۔ بطور پرائمری ٹیچر۔ یہاں تنخواہ بہت کم ملتی ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں گزارہ نہیں ہوتا۔

جب میں جوان ہوئی تو میری امی جان کو میری فکر لاحق ہوئی۔ ساس نے بڑی منتوں اور سماجتوں سے مجھے میری امی سے مانگا تھا۔ آج وہی ساس میری شکل دیکھنے کی بھی روادار نہیں۔ ایک سال تو یہ لوگ میرے ساتھ ٹھیک رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا اصلی رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے بیٹی سے نوازا تو ان لوگوں نے خوشی کا اظہار نہ کیا۔ دوسری بیٹی پیدا ہوئی تو ان لوگوں نے باقاعدہ سوگ منایا۔ میں نے پھر بھی شکر ادا کیا کہ جو اللہ میاں نے دے دیا وہی ٹھیک ہے۔ اس میں بھی کوئی مصلحت ہے حالانکہ مجھے بیٹے کی بہت خواہش تھی۔ کیونکہ میرا اپنا کوئی بھائی نہیں ہے۔ مجھے کوئی وظیفہ بتا دیں تا کہ شوہر مجھے بیوی کا مقام دیں اور مجھے اللہ اولاد نرینہ عطا کر دے۔

جواب: ہر نماز کے بعد 100بار اِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بَغَیْرِ حِسَاب پڑھ کر چند منٹ آنکھیں بند کر کے یہ تصور کریں کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔ اس کے بعد دعا کریں۔ جب تک حالات پوری طرح سدھر نہ جائیں یہ وظیفہ پڑھتی رہیں۔ 

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س