Topics

بیٹی خدا کی رحمت

سوال:  بابا جی! آداب عرض یہ ہے کہ میں ایک مایوس بھکارن آپ کے در پر حاضر ہوئی ہوں۔ میری شادی کو تقریباً بیس سال ہو گئے۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ شوہر بھی بہت عزت کرتا ہے اور ہم ایک خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن ابھی تک اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد نرینہ سے محروم رکھا ہے۔ میری تین بیٹیاں ہیں جب بھی امید سے ہوتی ہوں زکوٰۃ خیرات اور نذر نیاز کا اہتمام کرتی ہوں اور اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ مجھے اولاد نرینہ مل جائے۔ بعض اوقات بیٹیوں کو دیکھ کر نفرت کرنے لگتی ہوں۔ موجودہ حالات میں بیٹیاں درد سر اور مصیبت سے کم نہیں ہیں۔ آ پ اللہ کی برگزیدہ ہستی ہیں۔ اللہ سے دعا کریں کہ مجھے اولاد نرینہ مل جائے ابھی پھر امید سے ہوں۔

جواب: آپ کا خط پڑھا۔ مایوسی کفر ہے۔ آپ ہرگز مایوس نہ ہوں۔ اللہ اپنے کاموں کو بخوبی جانتا ہے۔ بیٹیوں سے ہرگز نفرت نہ کریں جس ہستی نے تمہیں بیٹی دی ہے وہی ہستی تم کو اولاد نرینہ کی دولت سے نوازے گی۔ اللہ کے کاموں پر غصہ کرنے اور ناراض ہونے کے بجائے شکر کریں۔ اللہ مایوس ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی بیٹیوں کو خدا کی رحمت سمجھ کر تربیت کریں۔ اور اللہ سے دعا کریں۔

رات کو سونے سے پہلے تین سو بار “یا اول” پڑھ کر پانی دم کر کے پئیں۔ دن میں ایک بار سورۃ یاسین پڑھیں۔ بچے کی ولادت تک عمل جاری رکھیں۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ آپ کو اولاد نرینہ کی دولت سے نوازے۔

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س