Topics
میں بہت کمزور سی ہوں۔ کوئی ڈاکٹر وٹامن اے
کی کمی بتاتا ہے کوئی بی کی اور کوئی سی کی۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں پوری طرح صحت
مند ہو جاؤں۔ مگر جب ذرا بہتری محسوس کرتی ہوں یا کوئی کہہ دے کہ تم بہتر ہو رہی ہو
پھر وہی چکر شروع ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی ایک خرابی ہو جائے تو چمٹ جاتی ہے۔ مثلاً مجھے
سردیوں میں ہاتھ سوجنے کی شکایت کوئی چھ سال پہلے ہوئی تھی۔ بہت علاج کیا مگر فائدہ
نہیں ہوا۔ ہوتا یوں ہے کہ ٹھنڈ لگنے سے انگلیوں میں درد شروع ہوتا ہے۔ پھر وہ سرخ ہو
کر سوج جاتی ہیں۔ سورج کی شعاعوں سے درد ختم ہو جاتا ہے پھر جب سوجن ختم ہونے لگتی
ہے تو خارش شروع ہو جاتی ہے۔ اگر کبھی ضرورت کے تحت زیادہ دیر ہاتھوں کو پانی میں رکھنا
پڑ جائے تو سوجن دو تین دن کے بعد جاتی ہے۔
دوسرا مسئلہ بڑا شدید ہے۔ وہ یہ کہ میرے نچلے
ہونٹ پر اندر کی طرف کناروں کے پاس چھالے نکلتے رہتے ہیں وہ یوں کہ وہاں کی جگہ ذرا
سوج جاتی ہے۔ پھر وہ دانت کے نیچے آتی ہے او روہاں پر ایک چھوٹا سا نشان پڑتا ہے جو
بڑا ہوتے چھوٹے مسور کی دال کے دانے کے برابر ہو جاتا ہے۔ یعنی اندر اس کے سفید مادہ
بھر جاتا ہے اور کنارے گہرے سرخ ہو جاتے ہیں۔ ان چھالوں میں سخت درد ہوتا ہے۔
جواب: سو باتوں کی ایک بات، آپ قبض کا علاج
کر لیں۔ سب تکلیفیں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ آپ کے لئے گلقند آفتابی کھانا بہت مفید
ہے۔ گرم چیزیں اور چکنی چیزوں سے پرہیز کریں۔ صبح شام ایک ایک چمچی شہد پانی میں گھول
کر استعمال کریں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت
خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار
خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم
“روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی
ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں
کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق
اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا
مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں
پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے
ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری
بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور
جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن
گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس
سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی
قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س