Topics

خلفشارمیں مبتلا ہوں

سوال:  عمر 20سال ہے۔بی اے کی طالبہ ہوں۔ تقریباً پانچ سال سے اس عذاب میں مبتلا ہوں کہ جب میں کوئی نیک خیال دل میں لاتی ہوں تو فوراً غیر اختیاری طور پر برا خیال دل میں آ جاتا ہے۔ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ پر صدق دل سے ایمان رکھتی ہوں لیکن جب بھی اللہ یا اس کے رسولﷺ کا خیال دل میں وارد ہوتا ہے نعوذ باللہ یہ خیال نیکی سے بدی کی طرف چلا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے ہر وقت توبہ استغفار کرتی رہتی ہوں۔ اکثر رات میں آنکھ کھل جاتی ہے تو رو رو کر اس کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں کہ مجھے اس عذاب سے چھٹکارا دے۔ بے ادبی کے خوف سے وہ الفاظ تحریر نہیں کر سکتی۔ سوچتی ہوں خود کشی کر لوں لیکن ایسوں کے لئے تو دنیا بھی عذاب اور آخرت بھی جہنم۔

کسی کو نما زپڑھتے دیکھتی ہوں تو بے اختیار آنسو بہنے لگتے ہیں کہ کیسی بدنصیب ہوں کہ مجھے یہ بھی میسر نہیں۔ جہاں ذکر الٰہی یا ذکر رسولﷺ ہوتا ہے ، ایسی ایسی فحش اور گھٹیا باتیں اور خیالات ذہن میں ابھرتے ہیں کہ میں خود کو ننگا اور عریاں محسوس کرتی ہوں۔ اپنے آپ کو نوچتی ہوں، مارتی ہوں اور روتی ہوں لیکن اس عذاب سے چھٹکارا نہیں ملتا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں نکل جاؤں جو مجھے اس اذیت سے نجات ملے۔

جب میں چھوٹی تھی تو اکثر ناپسندیدہ کہانیاں اور رسالے ہمارے گھر میں آتے تھے کیونکہ میرے ماموں نت نئی کہانیوں کے بہت شوقین تھے۔ میری امی نے مجھے ایک دفعہ ایسا ڈائجسٹ پڑھتے دیکھ کر مارا تھا مگر میں تجسس میں سب سے چھپ چھپ کر پڑھتی تھی۔ گویا نئی نئی باتیں ملتی تھیں جن سے بعض دفعہ تو دماغ میں دھماکے سے ہوتے تھے اور تمام جسم سنسنا جاتا تھا جیسے قبول کرنے سے انکار کر رہا ہو۔ مجھے اس تجسس نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کاش میں اپنی امی کی بات مان لیتی۔ اب تو عذاب میری زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ ہر قسم کی مذہبی محفلوں میں جانا ترک کر دیا ہے۔ جب تلاوت ہوتی ہے تو اٹھ آتی ہوں کہ بیٹھوں گی تو گستاخی ہو گی۔

دو سال سے اپنے والدین کے ساتھ مڈل ایسٹ میں مقیم ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ بڑی خوش قسمت ہو کہ آسانی سے مقامات مقدسہ کی زیارت کر سکتی ہو۔ سنتی ہوں تو رو پڑتی ہوں کہ آپ دور ہوتے ہوئے بھی کتنے قریب ہیں اور میں بدنصیب قریب ہوتے بھی کتنی دور ہوں۔ آج کل پاکستان آئی ہوئی ہوں۔

جواب: مخرب اخلاق ناول، افسانے اور ڈائجسٹ پڑھ کر آدمی کے جذبات میں ایک ایسا ہیجان پیدا ہو جاتا ہے کہ اس سے معاشرے میں رائج قدریں ٹوٹ جاتی ہیں۔ اور جب یہ قدریں ٹوٹ جاتی ہیں تو آدمی الٹے سیدھے خیالات میں الجھ جاتا ہے اور بالآخر ان ناپسندیدہ اور الجھے خیالات سے عقیدہ بھی خراب ہونے لگتا ہے تو انسان کے دماغ میں ایسے وسوسے آنے لگتے ہیں جن میں خدا، رسولﷺ اور مذہب سے بے زاری پائی جاتی ہے اور یہ بیزاری غیر اختیاری ہوتی ہے۔ عقیدہ کی خرابی اور ضمیر کی ملامت سے نظر نہ آنے والا ایک متعفن پھوڑا اس کے باطن میں پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ اتنا بے چین رہتا ہے کہ اس کی مثال بڑی سے بڑی بیماری میں بھی نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ اس تکلیف دہ کیفیت سے نجات پانے کے لئے کورے یا دھلے ہوئے کھدر یا لٹھے کا ایک کرتہ سلوایا جائے۔ یہ کرتا سارے جسم پر ایک ایک بالشت زائد ہو۔ اورٹخنوں تک نیچا ہو۔ آستین بھی ایک ایک بالشت کھلی ہوئی ہو۔ کسی ایسے کمرے میں جس میں اندھیرا ہو(اندھیرا نہ ہو تو اندھیرا کر لیا جائے) یہ کرتا پہن کر پندرہ منٹ تک ٹہلئے اور ٹہلتے وقت الحمد للّٰہ رب العالمینoالرحمٰن الرحیمoمالک یوم الدینoپڑھتی رہئے۔ پندرہ منٹ بعد کرتا اتار کر تہہ کر کے اسی کمرے میں کسی محفوظ جگہ پر رکھ دیجئے۔ جب تک عقائد درست ہوں اس وقت تک عمل کرتی رہیں۔ عمل کے وقت کمرہ میں اندھیرا ہونا ضروری ہے۔

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س