Topics
جواب: انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ دوسروں سے
توقعات قائم کرتا ہے اور بعض اوقات ایسی امیدیں وابستہ کر لی جاتی ہیں جن کو پورا کرنا
ہر انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ جب توقعات پوری نہیں ہوتیں تو بار بار مایوسی ہوتی ہے
اور آدمی ڈپریشن کا مریض بن جاتا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ بندے کو کسی ایسی ذات
سے توقعات قائم کرنی چاہئیں جس کے قبضہ قدرت میں یہ بات ہے کہ اس سے اگر روزانہ ایک
لاکھ خواہشات بھی وابستہ کر لی جائیں تو اسے ان کو پورا کرنے کی قدرت حاصل ہے۔
سکون آدمی باہر تلاش کرتا ہے جبکہ سکون کا
تعلق خارجی چیزوں سے ہرگز نہیں ہے۔ سکون ایک مستقل اور حقیقی کیفیت ہے جب ہم فکشن اور
غیر حقیقی وسائل میں سکون تلاش کرتے ہیں تو ہمارا لا شعور بے چین اور مضطرب ہو کر احتجاج
کرتا ہے۔ لاشعور کا یہی احتجاج، ڈپریشن اور بے سکونی ہے۔
ہمارے اندر ایک حقیقی ایجنسی ہر وقت، ہر لمحہ
اور ہر آن مصروف ہے۔ جب اس ایجنسی سے ہمارا رشتہ مستحکم ہو جاتا ہے تو ہمارے اوپر سے
حزن و ملال اور بے یقینی کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ایجنسی ہماری روح ہے۔ اور روح
اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہے۔ اسی لیے جو بندے اللہ تعالیٰ سے قریب ہو جاتے ہیں وہ ہمیشہ
پر سکون رہتے ہیں۔ ان کے اوپر پریشانیوں اور بیماریوں کا غلبہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ
سے قریب ہونے اور اللہ تعالیٰ سے دوستی کرنے کا مؤثر ذریعہ مراقبہ ہے۔ آپ بھی مراقبہ
کیا کریں ، انشاء اللہ ساری پریشانیوں سے نجات مل جائے گی۔ رات کو سونے سے پہلے آنکھیں
بند کر کے یہ تصور کیا کریں کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت
خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار
خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم
“روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی
ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں
کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق
اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا
مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں
پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے
ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری
بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور
جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن
گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس
سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی
قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س