Topics

بچوں کا دسترخوان

سوال:  میں ایک پریشان حال آپ کے در پر حاضر ہوئی ہوں۔ امید ہے مایوس نہیں کریں گے۔ عرض ہے کہ میری شادی کو تین سال ہو گئے۔ شوہر کے ساتھ اچھی انڈراسٹینڈنگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے گود ہری کی ہے۔ ایک بیٹا دو سال کا ہے۔ ماشاء اللہ مجھے اللہ نے ایک خوبصورت بیٹی سے نوازا ہے۔ جس کے لئے میں ہر وقت شکر گزار رہتی ہوں۔ ماشاء اللہ بچی خوبصورت ہے۔ لیکن ابھی اس کی ولادت کو دوسرا مہینہ ہے اور میرے سینوں میں دودھ دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ بعض اوقات بچی کی بھوک پوری طرح ختم بھی نہیں ہوتی ہے اور دودھ بند ہو جاتا ہے۔ مختلف دوائیاں کھائیں لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ بچی کو دیکھ کر افسوس کرتی ہوں۔ آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے میرے دودھ میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے اور میں اپنی بچی کے غذائی تقاضے بآسانی پورے کر سکوں۔

جواب: ماں کے سینے میں اللہ نے بچوں کا دسترخوان بنایا ہے اور بچے کے لئے ماں کا دودھ بہترین اور مقوی غذا ہے۔

ولادت کے بعد اگر دودھ نہ اترے یا دودھ کم ہو تو بچے کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہوتیں اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ڈبہ کے دودھ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ قانون قدرت پر تفکر کیا جائے تو ماں کا دودھ پینا بچہ کا فطری حق ہے اور جب مائیں اس حق کو پورا کرتی ہیں تو اولاد سعادتمند اور فرمانبردار اٹھتی ہے۔ دودھ کی اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا اسم “متین” عجیب، غریب خاصیت رکھتا ہے۔ ایسی ماں کو چاہئے کہ وہ بچہ کو دودھ پلانے سے پہلے گیارہ مرتبہ یَامَتِیْنُ پڑھ کر اپنے جسم پر دم کریں۔ اس عمل سے دودھ کی مقدار میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا۔

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س