Topics

ٹوٹ پھوٹ

سوال:  ہر طرف سے مایوس ہو کر آپ کی مدد، توجہ اور مہربانی کی طالب ہوں۔ اگر آپ نے بھی مایوس کیا تو اندھیروں میں ڈوب کر ختم ہو جاؤں گی۔ زندہ رہنے کی اس جدوجہد میں میرا آخری سہارا اور امید آپ ہی ہیں۔ میر عمر 38سال ہے۔ والدین حیات نہیں ہیں۔ غیر شادی شدہ ہوں۔ بچپن ہی سے پریشانی اور مصیبتوں کا سامنا کیا ہے۔ غریب گھرانوں میں بچے اسی طرح پلتے ہیں مگر میں شاید حالات سے سمجھوتہ نہ کر سکی یا شاید کوئی اور وجہ ہو۔ ہر حال میں ذہنی طور پر شروع سے ہی منتشر رہی ہوں۔ مجھے یاد نہیں کہ میں کبھی بھی ذہنی طور پر مطمئن رہی ہوں۔ عظیمی صاحب! تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا چاہا۔ تعمیری سرگرمیوں میں ترقی کرنا چاہی مگر کوئی بھی ہاتھ مدد کے لئے آگے نہ بڑھا۔ نہ کسی نے توجہ اور ضرورت محسوس کی۔ یہ کسک آج بھی محسوس ہوتی ہے اور بڑی شدت کے ساتھ۔ میں آج بی اے بی ایڈ ہوں مگر تعلیمی لحاظ سے میری کوئی صلاحیت نہ ہو سکی اور نہ ہی شخصیت کی تعمیر ہو سکی۔ میں اپنے آپ کو بہت پیچھے اور خالی محسوس کرتی ہوں۔ پتہ نہیں میرا انحطاط کہاں سے شروع ہوا۔ میری ٹوٹ پھوٹ کہاں سے شروع ہوئی۔ بس مجھے تو اتنا محسوس ہوتا ہے کہ میں اندر سے ہوں یا جو میری سوچ اور میرا اندر ہے وہ میں باہر نہیں ہوں۔ میری دوہری شخصیت ہے میں کیا چاہتی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم، میری شخصیت کیا ہے۔ میں اپنے پاؤں زمین پر ٹکانا چاہتی ہوں مگر اندر سے کوئی قوت مجھے خود اعتمادی سے محروم کر دیتی ہے۔ کسی کے سامنے بات نہیں کر سکتی۔ ہر انسان سے مرعوب ہو جاتی ہوں اور پھر لاشعوری طور پر اپنی کمزوری سے خود ہی شرمندگی محسوس کرتی ہوں۔ خود ہی بکھرتی ہوں۔ زندگی میں اعتماد ہی نہ ہو تو کچھ بھی نہیں۔

میں نے جو چاہا اس کا الٹ ہی ملا۔ اب دعا مانگنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔ نہ نماز پڑھتی ہوں نہ قرآن۔ سب چیزوں سے دل اچاٹ ہو گیا ہے۔

زندگی پر جمود طاری ہے۔ ہزار کوشش کے باوجود میں اپنے ذہن کو بکھرنے اور منتشر رہنے سے بچا نہیں پاتی۔ عظیمی صاحب! میں اپنے آپ سے لڑتے لڑتے تھک گئی ہوں۔ ذہنی کرب نے مجھے بیماریوں کا مجموعہ بنا دیا ہے۔ جھائیوں کی وجہ سے سارا چہرہ کالا ہو گیا ہے۔ نظر کمزور ہو گئی ہے۔ بال سفید ہو گئے ہیں۔

میری شادی نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ نہ سمجھیں کہ کسی اچھے رشتے کے انتظار میں رہی ہوں۔ میں نے کہا نا کہ جو میں نے چاہا الٹ ہی ملا ہے۔ خدا سے بڑی عاجزی سے عزت کی زندگی کے لئے دعا مانگتی رہی ہوں۔ مگر ایک جگہ میری شادی ہوتے ہوتے صرف چند دن پہلے معمولی بات پر فساد کا باعث بن گئی اور رشتہ ختم ہو گیا۔ لڑکے والوں نے ہماری بڑی بے عزتی کی۔ جب کہ میرا قصور بھی کوئی نہیں تھا۔ شادی کارڈ تک تقسیم ہو گئے تھے۔ آپ میری اس روح کی اذیت کا تصور کریں۔ شادی نہ ہونے سے زیادہ مجھے بے عزت ہونے کا دکھ ہوا۔ سب کچھ بڑوں کی مرضی سے ہوا اور ختم بھی ان کی مرضی سے ہوا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اپنے سارے جہیز کو آگ لگا دوں۔

عظیمی صاحب! مجھے اس ذہنی کرب سے بچا لیں۔ شدید احساس کمتری سے نجات دلا دیں۔ میں اب مزید نہیں ٹوٹ پھوٹ سکتی۔ مر جاؤں گی مجھے بچا لیں۔ روحانی ڈائجسٹ میں جواب کی منتظر رہوں گی۔

جواب: میری بیٹی! یہ ساری کائنات ہی ٹوٹ پھوٹ پر قائم ہے۔ آج کا دن، دن کے گھنٹے، گھنٹوں کے منٹ، منٹوں کے سیکنڈ اور سیکنڈوں کے لمحے اگر ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے نہ گزریں تو دن کا تذکرہ ہی نہیں آئے گا۔

آج کے پیدا ہونے والے بچے کے بچپن پر، لڑکپن پر موت وارد نہ ہو تو وہ جوان نہیں ہو گا۔ علیٰ ہذا القیاس یہ سارا نظام ٹوٹ پھوٹ کو قبول کر لیتا ہے اور کوئی اس ٹوٹ پھوٹ کو اپنی ذات کی انفرادی ٹوٹ پھوٹ سمجھ لیتا ہے اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو ایسا فرد احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی غم اور پریشانی میں مبتلا نہ ہو۔ شہنشاہ ایران سے بڑا کون امیر آدمی اور وسائل یافتہ ہو سکتا ہے۔ لیکن جب ہم اس کی عمر کے آخری حصہ پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اتنے بڑے شہنشاہ کو پریشانی، غم اور احساس محرومی کا عفریت نگل گیا۔ آپ کے لئے میرا مشورہ ہے کہ آپ زندگی کی حقیقتوں سے فرار اختیار نہ کریں۔ زندگی سمجھ کر اس کے نشیب و فراز سے سمجھوتہ کر لیں۔ سہاروں پر آس نہ لگائیں۔ سہارے فریب دیتے ہیں۔

روحانی علاج یہ ہے کہ 100بار درود شریف پڑھ کر نیلی روشنی کا مراقبہ کریں۔

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س