Topics
سوال: میری والدہ عرصہ دس سال سے سنگ رہنی جیسے مرض میں
مبتلا ہیں۔ خون کے مروڑ آتے ہیں۔ ہم نے پاکستان کے بڑے بڑے ہسپتالوں اور بڑے بڑے ڈاکٹروں
حکیموں سے علاج کروایا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اگر کبھی کچھ دن کے لئے فائدہ ہوا بھی
تو وہ عارضی ثابت ہوا۔ تعویذ گنڈے بھی کروا کے دیکھ لئے۔
والدہ کو جوڑوں کا درد بھی شروع ہو گیا ہے۔
سارے جسم میں درد رہتا ہے۔ سوئیاں ایسی چبھتی ہوئی محسو س ہوتی ہیں۔ اب یہ کیفیت ہے
کہ رات کے وقت جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور بالکل مردوں کی طرح اکڑ جاتا ہے۔
جواب: زرد رنگ کی صاف شفاف ولایتی شیشی میں
پکا ہوا پانی بھر لیں اور مضبوط کاک لگادیں۔ شیشی کا اوپری چوتھائی حصہ خالی رہنا چاہئے۔
اس شیشی کو ایسی جگہ رکھیں جہاں صبح سے تین چار بجے شام تک دھوپ آتی ہو۔ شام کے وقت
شیشی اٹھا لیں۔ اس پانی پر زردہ کا رنگ گھول کر روشنائی بنائیں اور اس روشنائی سے سفید
چینی کی تین عدد پلیٹوں پر الگ الگ یہ نقش لکھیں۔
صبح ناشتہ سے پندرہ منٹ پہلے، دوپہر اور رات
کو کھانے سے آدھا گھنٹہ قبل ایک ایک پلیٹ دھوپ میں تیار شدہ پانی سے دھو کر والدہ صاحبہ
کو پلائیں۔ کھانے میں بازار کا پسا ہوا نمک، بازار کے پسے ہوئے مصالحے ، تیز مصالحہ
دار غذائیں، تلی ہوئی چیزیں، بڑا گوشت، باسی چیزیں، گڑ، تیل اور زمین کے اندر پیدا
ہونے والی سبزیوں سے پرہیز کیا جائے۔
جن چیزوں کا استعمال فائدہ مند ہے یہ ہیں:
لہسن، ادرک، شلغم، پالک اور سرسوں کا ساگ،
توری، کچنار وغیرہ۔ پھلوں میں آڑو، پستہ، جامن، سنگترہ وغیرہ فائدہ کرے گا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت
خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار
خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم
“روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی
ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں
کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق
اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا
مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں
پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے
ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری
بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور
جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن
گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس
سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی
قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س