Topics
پہلے میں اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی تھی لیکن
اب میں اپنے دل میں ان کے لئے کوئی جذبہ نہیں پاتی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ لڑکی نے تعویذ
کے ذریعے میرے دل سے شوہر کی محبت نکال دی ہے۔ میرے شوہر بھی میری طرف کوئی توجہ نہیں
دیتے۔ نہ صحیح طرح بات کرتے ہیں اور نہ کہیں ملنے جلنے یا سیرو تفریح کے لئے لے کر
جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ میکے بھی نہیں جانے دیتے۔ اور میکے والوں کو بھی میرے ہاں آنے سے
منع کیا ہوا ہے۔ خواجہ صاحب! ان حالات کی وجہ سے میرا جو حال ہے وہ میں بیان نہیں کر
سکتی۔ آپ کوئی ایسا روحانی عمل بتائیں جس سے وہ لڑکی میرے شوہر کا پیچھا چھوڑ دے اور
میرے شوہر کے دل میں میرے لئے وہی پہلی سی محبت پیدا ہو جائے۔
جواب: آدھی رات گزرنے کے بعد جب شوہر گہری
نیند سو رہے ہوں آپ وضو کر کے کھلے آسمان کے نیچے ننگے پیر زمین یا فرش پر کھڑی ہو
جائیں اور سر پر دونوں ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ ایک سو تین مرتبہ الرحمٰن الرحیم
پڑھ کر بستر پر چلی جائیں اور شوہر کا تصور کرتے کرتے سو جائیں۔ ایک سو تین مرتبہ شمار
کرنے کا طریقہ یہ ہو گا کہ آپ پہلے یہ دور کر کے گھڑی دیکھ لیں کہ کتنی دیر لگتی ہے۔
اندازہ سے اتنی ہی دیر پڑھتی رہیں زیادہ یا کم ہو جانے سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
عمل کی مدت چالیس روز ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت
خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار
خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم
“روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی
ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں
کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق
اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا
مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں
پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے
ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری
بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور
جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن
گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس
سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی
قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س