Topics

کیل کے نشانات

سوال:  ہماری عمریں کافی ہو چکی ہیں۔ والدین بوڑھے ہو گئے ہیں۔ ہمارے چہروں پر کیل کے نشانات ہیں۔ رشتے آتے ہیں تو یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ ان کے منہ پر داغ اور کیل ہیں۔ ان کی وجہ سے ہم سب بہت پریشان ہیں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مسائل حل کردیں۔ علاج بھی تجویز فرما دیں۔

جواب: اتنی ساری لڑکیوں کے چہروں پر کیل کے نشانات بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔ کیا کوئی یونین بنا لی ہے کہ اس یونین میں وہی لڑکیاں شامل ہو سکتی ہیں جن کے چہروں پر کیل کے نشانات ہوں۔

چہرے پر کیل کے نشانات کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جوانی میں چونکہ خون جوش کرتا ہے، خون کے جوش سے چہرے پر دانے نکل آتے ہیں۔ اس میں خارش یا جلن ہوتی ہے۔ لڑکیاں اس پھنسی نما دانے کو توڑ دیتی ہیں اور اس میں سے پیپ کی بنی ہوئی کیل نکال دیتی ہیں۔ نتیجہ میں چہرہ پر نشان رہ جاتا ہے۔ اگر دانوں کو توڑا نہ جائے تو یہ نشانات نہیں ہوتے لیکن اگر ایک مرتبہ نشان بن جائیں تو ختم ہونا مشکل ہوتا ہے۔ خالص صندل کا تیل انگشت شہادت سے داغ کی جگہ جذب کیا جائے تو نشان ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن تیل کا خالص ہونا ضروری ہے جن بچیوں کے چہرے پر دانے نکل رہے ہیں ان کو گرم چیزیں کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ ترکاریاں زیادہ کھائیں اور چہرہ نیم کے پتوں کے پانی سے دھوئیں۔ طریقہ یہ ہے کہ نیم کے پتے پانی میں جوش کر لیں۔ پتے پھینک دیئے جائیں اور پانی الگ کیا جائے۔

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س