Topics

ضمیر کی بیماری

سوال:  میں آپ کی توجہ اور مراقبہ میں دعا کی خواستگار ہوں۔ امید ہے آپ اس دکھی بیٹی کو مایوس نہیں کرینگے۔ میں ہر وقت بے چین و بے قرار رہتی ہوں۔ دل بھی خوفزدہ اور سہما سا رہتا ہے۔ اگر کوئی چیز زور سے حرکت کرے یا بجنے لگے مثلاً باجا وغیرہ تو دل ڈوبنے لگتا ہے۔ ہر وقت رونے کو جی چاہتا ہے اس لئے اکثر رونی صورت بنائے رکھتی ہوں یا خوب پھوٹ پھوٹ کر روتی ہوں۔ ایک ایک بات کا حد سے زیادہ احساس کرتی ہوں اسی وجہ سے اندر ہی اندر جلتی اور کڑھتی رہتی ہوں۔ اکثر خود کو تنہا محسوس کرتی ہوں۔ لگتا ہے کہ سب لوگ مجھے برا سمجھتے ہیں دل چاہتا ہے کہ الگ کمرہ میں پڑی رہوں۔ کسی محفل میں جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کوئی کچھ کہہ نہ دے یا مجھ پر تنقید نہ شروع کر دے۔ اس بات کا مجھے گھر میں بھی شدت سے احساس رہتا ہے۔ کوئی آ جائے یا کہیں چلی جاؤں تو کسی سے خود اعتمادی سے بات نہیں کر سکتی اور نہ چاہتے ہوئے بھی میرے رویے سے سرد مہری جھلکتی ہے۔ صبح اٹھتی ہوں تو دل مردہ سا ہوتا ہے ذرا سا غصہ آ جائے تو ہاتھ اور ٹانگیں شدید کپکپانے لگتی ہیں۔

جواب: آپ لوگوں کی کوتاہیوں پر نظر رکھتی ہیں اور پھر ان کوتاہیوں کی وجہ سے آپ دوسروں کو برا سمجھتی ہیں۔ اس طرز عمل سے آپ کا ضمیر بے چین رہتا ہے اور یہی سب تکلیفوں کا سبب ہے۔ کوشش کر کے یہ طرز عمل ختم کر دیا جائے تو ساری تکلیفیں آہستہ آہستہ از خود ختم ہو جائیں گی۔ ہر نماز کے بعد ایک سو بار استغفار پڑھا کریں اور تین وقت شہد کھائیں۔ شہد کے اوپر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر دم کر لیا کریں۔

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س