Topics

اُمّ الصبیان

سوال:  مسئلہ میری بہن کا ہے۔ بڑی بہن کی شادی ماموں کے لڑکے سے ہوئی ہے۔ پہلا بیٹا جو شادی کے 9مہینے بعد ہوا تھا۔ تقریباً 9مہینے زندہ رہا۔ اس عرصہ میں نہ اس کی گردن سنبھلی تھی اور نہ ہی وہ نارمل بچوں کی طرح متوجہ ہوتا تھا۔ بلکہ اوپر دیکھتا رہتا تھا۔ میری بہن اور بہنوئی نے دنیا جہان کے ڈاکٹروں کو دکھایا سب نے یہی کہا کہ بچہ بالکل ٹھیک ہے۔ اس کے بعد باجی کی دوسری بیٹی بالکل ٹھیک ہے۔ مگر اب ان کی تیسری بیٹی جو اب ایک سال کی ہونے والی ہے اس کے ساتھ پھر وہی بیٹے والامسئلہ ہے کہ نہ تو وہ متوجہ ہوتی ہے اور نہ اس کی گردن بچوں کی طرح ہے اور تمام ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ بالکل نارمل ہے مگر سست ہے اور ہر کام دیرے سے کرے گی۔ مگر عظیمی صاحب! بعض اوقات وہ بہت روتی ہے اور سانس کھینچ کر ایک دم سخت اور نیلی ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر حضرات اسے فِٹس(FITS) کی دوا دیتے ہیں۔

جواب: گلے میں ام الصبیان کا تعویذ ڈال دیں۔ ام الصبیان کا تعویذ یہ ہے:

 

روغن سونجان تلخ، بچے کی کمر میں پوری ریڑھ کی ہڈی پر آہستہ آہستہ دائروں میں مالش کریں۔ نیلی شعاعوں کا تیل گردن کے پورے جوڑ پر دائروں پر مالش کریں۔ مالش دھوپ میں لٹا کر کی جائے۔ پسینہ آنے پر بچہ کو کپڑے یا کمبل میں لپیٹ دیں تا کہ ہوا نہ لگے۔ صبح شام شہد چٹائیں شہد کے اوپر ایک مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کر دیا کریں۔ بار بار بچہ کا صدقہ دیں۔

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س