Topics
جواب: اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہیں۔ وہ جب چاہیں اور جو چاہیں کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ آپ کے لئے علاج تجویز کیا جا رہا ہے۔ یقین اور دلجمعی کے ساتھ اس پر عمل کریں۔
ایک پاؤ کلونجی (کالے بیج جو اچار میں ڈالے
جاتے ہیں) پانی سے دھو کر دھوپ میں سکھا لیں اور کھلے منہ کی نیلی شیشی میں بھر کو
مضبوط کارک لگا دیں۔ اوپر سے ایک چوتھائی شیشی خالی رہنی چاہئے۔ رات کو سونے سے پہلے
وضو کر کے سو مرتبہ اِقْرَابِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَoخَلَقَ الْاِنْسَانَ مَنْ عَلَقo
پڑھ کر کلونجی پر دم کر کے شیشی میں بند کر دیں۔ یہ شیشی صبح دھوپ
میں ایسی جگہ رکھ دیں جہاں سارا دن دھوپ رہتی ہو۔ رات کو اٹھا کر پھر سو مرتبہ عمل
کر کے اس پر دم کر دیں اور اگلے روز صبح پھر دھوپ میں رکھ دیں۔ اسی طرح یہ عمل چالیس
روز تک دہرائیں۔ عمل پورا ہونے کے بعد ایک چٹکی کلونجی صبح نہار منہ پانی سے نگل لیا
کریں۔ جب تک یہ کلونجی ختم نہ ہو اس عمل کو جاری رکھیں۔ ایک پاؤ کلونجی ختم ہونے سے
پہلے پہلے انشاء اللہ آپ “امید” سے ہو جائیں گی۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو گول مٹول،
خوبصورت، ہنستا کھیلتا بیٹا عطا کریں۔ آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت
خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار
خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم
“روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی
ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں
کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق
اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا
مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں
پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے
ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری
بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور
جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن
گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس
سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی
قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س