Topics

ہمارے پاس نہ عمر ہے نہ جہیزہے

سوال:  گھر کا ماحول بہت گھٹن والا ہے۔ دقیانوسیت کی ایک مضبوط دیوار ہمارے ارد گرد اٹھی ہوئی ہے۔ پہلے تو والد صاحب رشتوں کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ اب وہ ریٹائر ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ہمارے پاس نہ عمر رہی اور نہ ہی جہیز۔ ایک بھائی شادی شدہ ہے جو کئی بچوں کا باپ ہے۔ باپ کے ہوتے ہوئے بچوں والا بھائی ہماری کیا مدد کرے گا۔ اس مہنگائی کا مقابلہ سفید پوش کے لئے بہت ہی مشکل ہے۔ آخر ایک دن چھوٹے بھائیوں کی بھی شادیاں ہو جائیں گی۔ تب ہمارا کیا ہو گا۔ ہم پٹھان لوگ لڑکیوں کو زندہ لاشیں تو بنا سکتے ہیں مگر غیر ذات میں ان کی شادی نہیں کر سکتے۔ لڑکیاں ملازمت نہیں کر سکتیں۔ دل کی بات صاف صاف کہہ رہی ہوں۔ آپ مجھے کوئی ایسا موثر اور آسان وظیفہ بتا دیجئے کہ آناً فاناً ہم تینوں بہنوں کی شادی ہو جائے اور بھائیوں کے سر سے بوجھ اترے۔ والدین بوڑھے ہو چکے ہیں۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم لوگوں کی شادی نہ ہوئی تو ایسا وقت آ جائے گا کہ ہم تینوں بہنیں ذلیل و خوار ہو جائیں گی۔ کیونکہ نہ تو ہماری کوئی ذاتی جائیداد ہے اور نہ کوئی سہارا۔ شادی کا مسئلہ تو بالکل عام سی بات ہے لیکن یقین جانیے ہمارے لئے یہ مسئلہ بہت سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔

جواب: سب بہنیں رات کو سونے سے پہلے تین سو بار یَرُسَلَ الرِّیَاحَ فِیْمَا کَانَ فِیْہَ پڑھ کر شادی کے لئے دعا کریں۔ اور دعا کو پانچ منٹ تک دہراتے دہراتے سو جائیں۔

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س