Topics

خلاء میں چہل قدمی

سوال:  شادی کو 4سال ہونے والے ہیں۔ میں 3بچوں کی ماں ہوں۔ ماں باپ کے سائے سے محروم ہوں۔ شادی ہوئی تو سسرال میں گالی کے سواکوئی بات نہ کرتا تھا۔ شوہر بھی حد سے زیادہ غصہ والا۔ بات بے بات جو چیز ہاتھ میں آ جائے اس سے زد و کوب کرنا ان کی عادت ہے۔ میں حالات کا مقابلہ نہیں کر سکی اور رفتہ رفتہ بیمار رہنے لگی اور یہ بیماری میری زندگی کا روگ بن گئی۔ چونکہ گھر میں کام کرنے کے قابل نہیں رہی اس لئے ساس صاحبہ نے مجھے بالکل نظر انداز کر دیا۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے جبکہ میں دو چار قدم چلنے سے بے حال ہو جاتی ہوں۔ بہت علاج کروایا، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ بات غور سے سنئے کہ مجھے اچانک جولائی کے ماہ سے ایسے محسوس ہونے لگا ہے بس میں اب مرنے والی ہوں۔ یکایک سانس بند ہو جاتا ہے اور دل ڈوبنے لگتا ہے۔ دل میں ہر وقت طرح طرح کے خیالات آتے رہتے ہیں۔ ہر کسی کے سامنے گھبراتی ہوں۔ بچوں کا کام بھی نہیں کر سکتی۔ شوہر کا حال یہ ہے کہ ہر وقت کہتے رہتے ہیں کہ خدا کرے تو مر جائے تا کہ میری جان چھوٹ جائے۔ جب وہ مرنے کی دعا کرتے ہیں تو میرے دماغ میں شدید درد ہوتا ہے۔ شوہر جب غصہ سے دیکھتے ہیں تو پیٹ میں بل پڑنے لگتے ہیں۔ نہ کچھ کھانے کا جی چاہتا ہے نہ پینے کو۔ حالت انتہائی ابتر ہے۔ اللہ توجہ فرمائے۔

جواب: یَا حفیظُ کا ورد کریں اور آنکھیں بند کرکے یہ تصور کریں کہ آپ خلاء میں چہل قدمی کر رہی ہیں۔ اس عمل سے آپ مایوسی کے خول سے باہر آ جائیں گی۔ آپ کی ساری پریشانیوں کی بنیاد احساس محرومی اور مایوسی ہے۔

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س