Topics

زبان پر سیاہ نشان

سوال:  میں ایک تعلیم یافتہ خاتون ہوں۔ اپنی بیماری کی وجہ سے عرصہ چار سال سے پریشان ہوں۔ علاج سے تھک کر آپ کی طرف رجوع کر رہی ہوں۔ امید ہے مایوس نہیں کریں گے۔ میرے سینے پر دباؤ رہتا ہے اور سانس کھینچ کر لیتی ہوں۔ دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ شکایت بازار میں زیادہ رش، کسی تقریب میں، بند کمرے میں، ٹی وی دیکھتے وقت ہوتی ہے۔ کسی وقت بیٹھے بیٹھے سانس بند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ گاڑی میں بیٹھنے اور شور کی آواز سے تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میں مر جاؤں گی۔

ہونٹوں پر کالے دھبے اور زبان کے نیچے سیاہ نشانات ہیں۔ کلیجے میں درد رہتا ہے۔ کمزوری سے چکر بہت آتے ہیں۔ دن بدن شک کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے۔

جواب: نظام ہضم خراب ہے۔ آنتوں میں تعفن جمع ہو گیا ہے۔ علاج بہت آسان ہے۔

ایک چھٹانک منقیٰ کے بیج نکال کر دودھ میں پکائیں۔ پکاتے وقت ایک چمچی زیتون کا تیل بھی ڈال دیں۔ جوش آنے پر منقیٰ کھا کر اوپر سے دودھ پی لیں۔ یہ عمل اکیس دن تک کریں۔ اللہ کے کرم سے بیان کردہ ساری تکلیفیں ختم ہو جائیں گی۔ صحت یاب ہونے پر غریبوں مسکینوں کو کھانا کھلائیں۔ ان کی مدد کریں کہ

کر بھلا سو ہو بھلا

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س