Topics

شادی روکنے کیلئے

سوال:  ایک بے سہارا لڑکی، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنی داستان غم کہاں سے لکھوں۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔ اپنی زندگی سے بیزار آ گئی ہوں۔ موت کے سوا کوئی نجات نظر نہیں آتی۔ خدا کے لئے میری مدد کیجئے۔ میں نے آج تک اپنی زندگی صبر و شکر سے گزاری ہے۔ اس کا بدلہ یہ ملا ہے کہ زندگی میں غموں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ لکھتے ہوئے مجھے رونا آ رہا ہے کہ میرے لئے ایک بوڑھے شخص کا رشتہ آیا ہے۔ خدا کے لئے کوئی ایسا وظیفہ بتا دیجئے کہ میری شادی اس بڈھے سے نہ ہو۔ مجھے ڈر ہے کہ میرے والدین اس کا رشتہ قبول کر لیں گے کیونکہ وہ بہت دولت مند اور ہم غریب ہیں۔ اگر والدین نے میری شادی اس سے طے کر دی تو میں زندہ نہیں بچوں گی۔ جب سے یہ منحوس خبر سنی ہے میری راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ سب گھر والے تو مزے سے سوتے ہیں اور میں رات رات بھر روتی رہتی ہوں۔ میں نے انکار کر دیا ہے لیکن گھر والے نہیں مانتے، کہتے ہیں بوڑھا ہے تو کیا ہوا، امیر تو ہے۔

جواب: آدھی رات گزرنے کے بعد ننگے پیر اور ننگے سر کھلے آسمان کے نیچے کھڑی ہو کر نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر ایک سو ایک مرتبہ یا رقیب پڑھ کر دعا کریں۔ انشاء اللہ آپ کی مرضی کے خلاف شادی نہیں ہو گی۔ ہمت اور حوصلہ سے بھی کام لینے کی ضرورت ہے۔ آپ کو شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ شادی کے معاملے میں آپ گھر والوں کو اپنا فیصلہ سنا دیں اور اس پر قائم رہیں۔

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س