Topics
نامی گرامی خاندان کے بڑے بڑے شرفاء نے مجھے
حاصل کرنے کے لئے بازی لگائی ہوئی تھی۔ کیونکہ قدرت نے مجھے فیاضی کے ساتھ حسن عطا
کیا تھا۔ مگر میرے سرپرستوں نے مجھے 14سال کی عمر میں ایک ایسے شخص کے ساتھ باندھ دیا
جس کی طبیعت میں عیاری، مکاری اور ہلکا پن تھا۔ میں والدین کی عزت کی خاطر نباہ کرتی
رہی اور یہ سوچتی رہی کہ کبھی تو میرے دن پھریں گے۔ مگر اب جب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم
رکھ چکی ہوں۔ بچوں کے چہرے کے باریش ہو گئے ہیں۔ خاوند کہتے ہیں کہ میں نے تیری زندگی
برباد کر دی ہے۔ اب وہ دوسری شادی کے چکر میں ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ میں جاؤں تو کہاں
جاؤں؟
جواب: تکیہ کا غلاف مخمل (VELEVET) کے کپڑے کا سلوائیں یا خود ہی
سی لیں۔ مخمل کا رنگ گہرا گلابی ہونا چاہئے۔ سوتے وقت یہی تکیہ سر کے نیچے رکھا کریں۔
حالات خراب ہونے کی ذمہ داری آپ کے شوہر پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ آپ بھی برابر کی شریک
ہیں۔ آپ نے خاوند کو مجبوری کے تحت قبول کیا ہے۔ خاوند کو وہ پیار نہیں ملا جس کا وہ
حق دار تھا۔ بچوں کی بیماریوں کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کو خاندانی بیماریوں کا ورثہ منتقل
ہوا ہے۔ خاندان کے افراد میں ایسی طرز فکر عروج پر ہے کہ جو فطرت سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
بے جا ضد، کبر و نخوت دوسروں کو کم تر سمجھنا خاندانی معمول نظر آتا ہے۔ آپ پہلے اپنی
طرز فکر میں تبدیلی لائیں پھر تجویز کردہ علاج کریں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے
مخلوق کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت
خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار
خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم
“روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی
ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں
کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق
اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا
مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں
پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے
ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری
بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور
جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن
گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس
سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی
قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س