Topics

اخلاق کی فضول خرچی

سوال:  میری بڑی بہن بڑی سیدھی سادھی خوبصورت نیک شریف، اچھے دل کی ہیں۔ ہمیشہ دوسروں کی خدمت کرتی ہیں۔ اس حد تک خدمت کرتی ہیں کہ ہم لوگ اکثر ان کو ٹوکتے رہتے ہیں مگر وہ کھلا پلا کر ہر طرح کا سکھ چین دوسروں پر نچھاور کر کے یہ سمجھتی ہیں کہ سب لوگ ان سے بہت خوش ہیں۔ حالانکہ یہی لوگ پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرتے ہیں جب وقت گزر جاتا ہے تو ان کی سمجھ میں آتا ہے کہ لوگ خود غرض ہیں۔ سمجھا بجھا کر تنگ آ چکے ہیں۔ ہر وقت ان کی طرف سے دل دکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے سیدھے سادھے لوگ پیدا کرتا ہے کہ ماں باپ، بہن بھائی ان کی سادگی سے دکھ اٹھائیں۔ ان کی پہلی شادی 13سال کی عمر میں ہوئی جب کہ شوہر کسی اور لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا اور اس نے دوسری شادی کر لی۔ اس بات کو ہماری بہن نے ماں باپ سے چھپایا اور اس لڑکی کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ سسر کے انتقال کے بعد ہماری بہن کو طلاق دے کر ہمارے گھر بھیج دیا۔ ہم لوگ رو دھو کر چپ ہو رہے۔

جواب: ہر نماز کے بعد 100بار اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الحَیُّ القَیُّوم پڑھ کر مستقبل روشن ہونے کی دعا کریں۔ قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ روپے پیسے، صحت کی فضول خرچی کی طرح اخلاق کی بھی فضول خرچی ہوتی ہے اور اخلاق کی فضول خرچی یہ ہے کہ آدمی ایسے لوگوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آئے جو احسان فراموش اور خود غرض ہوں۔

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س