Topics
جب میاں نے گھر آ کر یہ کیفیت بتائی تو میں
نے ساری رات رو کر گزاری اور اس دکھ سے مجھے تین راتیں نیند نہ آئی۔ ایک رات نیند کی
گولی کھانے سے شکر ہے کہ مجھے باقاعدہ نیند آنے لگی۔ دوبارہ میں نے گولی نہیں کھائی۔
مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہڈیاں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ بوجھ کو برداشت نہیں کرتیں۔
خاص طور پر گھٹنے کے بوجھ کو بالکل برداشت نہیں کرتیں اور ایک گھنٹے میں ٹیسیں اٹھتی
ہیں۔ درد تو دونوں میں لگا تار رہتا ہے۔ کمر میں بھی اب درد ہونے لگا ہے۔ زیادہ چل
پھر نہیں سکتی۔ اگر کسی وقت زیادہ چلوں تو دوسرے دن بالکل اٹھا نہیں جاتا۔ میں اس تکلیف
کے باعث بڑی پریشان ہوں۔ بارگاہ ایزدی میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ پاک معذوری کی زندگی
سے بچائے رکھے! اللہ پاک کسی کا محتاج نہ کرے۔ آمین۔ سب سے بڑا دکھ تو یہ ہے کہ نہ
میری ماں ہے، نہ کوئی بہن اور نہ ہی اولاد جیسی نعمت۔ غرضیکہ منہ میں پانی ٹپکانے والا
کوئی نہیں۔ شوہر تو پہلے ہی ایسا ہے جو خود اٹھ کر پانی پینا گوارا نہیں کرتا۔ میں
اس درد کی تکلیف کے باعث دو مریضوں کو معذوری کی حالت میں دیکھ چکی ہوں اور تب سے بہت
بے چین رہتی ہوں۔
جواب: السی کوٹ کر سفوف بنا لیں۔ صبح شام تین
تین ماشہ تازہ پانی کے ساتھ کھائیں۔ گھٹنوں پر سبز رنگ شعاعوں کا تیل دائروں میں مالش
کریں، دس منٹ رات کو اور دس منٹ دن میں۔ کھانوں میں نمک اور چکنائی نہ ہونے کے برابر
کر دیں۔ ٹھنڈا پانی نہ پئیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت
خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار
خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم
“روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی
ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں
کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق
اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا
مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں
پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے
ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری
بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور
جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن
گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس
سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی
قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س