Topics
بدصورت بوڑھی چڑیل جس کی ناک طوطے کی طرح لمبی
ہے اور سیاہ کپڑے پہنے ہوئے ہے مجھے ہنڈیا میں پکاتی ہے اور چمچہ لے کر مجھے ہلاتی
ہے۔ پانی ابل رہا ہے بھاپ نکل رہی ہے اور باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہوں، سر اونچا کرتی
ہوں تو میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
یہ صرف خواب کی کیفیات ہیں۔ جاگتے میں دیکھتی
ہے کہ دھند مجھے کام کرنے سے روکتی ہے۔ ٹھیک کام کروں تو روکتی ہے اور غلط سکھاتی ہے
اور غلط باتوں اور بیوقوفی کرنے کی طرف لاتی ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ختم کر
دیتی ہے اور میں محسوس کرتی ہوں کہ کوئی اور مجھے کنٹرول کر رہا ہے۔
ایک دن دوپہر کو میں صوفے پر بیٹھی تھی تو
وہ دھند مجھے حقیقت میں نظر آئی۔ اس کا رنگ گہرے(Grey) ہے اور میں قید خانے میں ہوں جس کی ایک دیوار ہے وہ دھند ہے اس میں
دراڑیں ہیں اور ان دراڑوں کے پار میں لوگوں کو دیکھتی ہوں۔ اور یہ دھند مجھے اپنی یہ
پرابلم دوسروں کو بتانے سے روکتی ہے۔ کہتی ہے تم جھوٹ بولتی ہو اور اگر تم بتا بھی
دو تو دوسرے لوگ یقین نہیں کرینگے اور مجھے دوسروں سے بات کرنے سے روکتی ہے۔
جواب: اپنی بیٹی کو روزانہ ایک ایک چمچی صبح
شام شہد کھلائیں اور بیٹی سے کہیں کہ ٹی وی پر چڑیلوں اور شیطان صفت فلمیں نہ دیکھا
کرے۔ رات کو سونے سے پہلے اولیاء اللہ اور صحابہ کرام کے قصے پڑھ کر سویا کرے۔ انشاء
اللہ بیداری اور خواب میں چڑیلیں نظر آنا بند ہو جائے گا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت
خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار
خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم
“روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی
ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں
کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق
اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا
مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں
پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے
ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری
بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور
جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن
گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس
سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی
قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س