Topics
جواب: یہ بات کہ مزار پر حاضری دینے کے بعد
ہی بچہ کا عقیقہ ہوتا ہے یا گھر میں بال کاٹنے سے بچہ فوت ہو جاتا ہے صحیح نہیں ہے۔
فارسی کی ایک کہاوت ہے۔
پیر نہیں اڑتا البتہ مرید اس کی شان میں قصیدے
پڑھ کر اسے اڑا دیتے ہیں۔
عقیدہ کے سلسلہ میں ایک بات زیادہ توجہ طلب
ہے کہ جب کسی بات پر یقین ہو جاتا ہے تو وہ بات ہو بھی جاتی ہے مثلاً اگر ماں باپ اور
دوسرے قریبی رشتہ دار یہ بات ذہنی طور پر تسلیم کر لیں کہ فلاں کام نہ کرنے سے نقصان
ہو گا تو نقصان ہو جائے گا اور اگر اللہ کے اوپر یقین ہے تو نقصان نہیں ہو گا۔ اسلام
نے اس ہی باطل عقیدہ کو ختم کرنے کی دعوت دی ہے۔ خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے
ہوئے تھے۔ جب وحدانیت کی تعلیم دی گئی تو لوگ اس وجہ سے بھی گھبرا گئے کہ ان کے ذہنوں
میں یہ وسوسہ یقین کا درجہ حاصل کر چکا تھا کہ اگر بت ناراض ہو گئے تو تباہی پھیل جائے
گی اور جب یہ وسوسہ یا شیطانی عقیدہ باطل ہو گیا تو تین سو ساٹھ بت ختم ہو گئے ، کوئی
تباہی نہیں پھیلی بلکہ واحد ذات اللہ کا فضل عام ہو گیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت
خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار
خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم
“روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی
ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں
کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق
اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا
مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں
پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے
ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری
بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور
جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن
گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس
سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی
قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س