Topics
خواجہ صاحب! میں چاہتی ہوں کہ وہ دوبارہ ہمت
سے کام لیں اور رشتہ مانگیں اور میرے والدین ہاں کر دیں اور شادی عزت سے ہو جائے۔
دوسرا مسئلہ باجی کا ہے۔ باجی بچپن سے ہی آدمیوں
سے نفرت کرتی ہیں مگر اچانک ایک اچھا شخص رشتہ کے لئے آیا اور عجیب بات یہ کہ باجی
اسے پسند کرنے لگیں مگر ہوا وہی کہ بغیر کسی سبب کے اس شخص کی شادی کہیں اور ہو گئی۔
اب باجی اپنی پرانی روش پر بھی آ گئی ہیں اور کہتی ہیں کہ شادی میں کیا رکھا ہے؟ مجھے
نہیں کرنی شادی۔
آپ سے التجا ہے کہ ایسا وظیفہ مجھے یا والدہ
کو بتائیں کہ باجی کا دماغ درست ہو جائے اور کوئی اچھا رشتہ آجائے۔ براہ کرم ساتھ ہی
آپ ٹیلی پیتھی کے ذریعہ باجی اور میرا رشتہ مانگنے والوں کے دماغوں کو صحیح راستے کی
ترغیب دیں۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب: ہر نماز کے بعد ایک سو بار یا وہاب پڑھ
کر دس منٹ تک عرش کا تصور کریں اور صرف ایک مقصد شادی کے لئے دعا کریں۔ صبح سویرے بیدار
ہو کر شمال کی طرف منہ کر کے بیٹھ جائیں ، آنکھیں بند کر کے 300بار اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ
عَلیٰ النِّسَاءَ پڑھیں۔ یہی عمل آپ کی والدہ بھی دہرائیں۔ صبح سویرے کا ورد کرنے سے
پہلے وضو کر لیں۔ عمل کے بعد فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے سو جائیں۔
جب تک شادی کی تکمیل ہو یہ عمل جاری رکھیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت
خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار
خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم
“روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی
ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں
کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق
اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا
مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں
پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے
ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری
بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور
جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن
گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس
سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی
قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س