Topics

جھوٹی نمائش

سوال:  میں اپنے بڑے لڑکے کی وجہ سے سخت پریشان ہوں۔ پڑھنے میں بالکل دلچسپی نہیں ہے۔ بدتمیز ہے، سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں تو کہتا ہے دماغ خراب نہ کریں۔ دس روپے روز مانگتا ہے۔ میں اس کے لئے دس روپے کہاں سے لاؤں۔ کہتا ہے تم نے مجھے پیدا کیوں کیا۔ خود اپنا گزارہ نہیں ہوتا تو اولاد کو خوشیاں کیسے دو گی۔ امیر دوستوں میں بے عزتی ہوتی ہے۔ ہر وقت بیمار رہتی ہوں۔ کہتا ہے آخر مجھے اس دنیا میں لا کر ذلیل و خوار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ میں ملازم پیشہ عورت ہوں۔ میں اس کی ماں ہوں۔ اس نالائق نے مجھے زندہ درگور کر دیا ہے۔ بلڈ پریشر کسی طرح ختم نہیں ہوتا۔ دل کا مرض بھی لگ گیا ہے۔ اب تو نوکری بھی خطرہ میں پڑ گئی ہے۔ کوئی علاج بتائیں جو آسانی سے کر سکوں۔ محفل مراقبہ میں بھی دعا کریں۔

جواب: گھن زدہ معاشرہ کی تصویر ہے آپ کا بیٹا۔ جب اخلاقی قدریں ٹوٹ جاتی ہیں اور آدمی کے اوپر دولت سائبان بن جاتی ہے تو اولاد کے دل میں سے والدین کا احترام اٹھ جاتا ہے۔ چھوٹے بزرگوں کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ جھوٹی نمائش ان کے خمیر کے اندر سے نورختم کر دیتی ہے اور انسان حیوان بن جاتا ہے۔ آپ کا خط معاشرے کے لئے عبرت کا مرقع ہے۔ خدا رحم کرے

رات کو سونے سے پہلے ایک سو ایک بار اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰاتِ وَاْاَرْضِ پڑھ کر بند آنکھوں سے بیٹے کا تصور کر کے دم کریں اور دعا کریں۔ محفل مراقبہ میں انشاء اللہ دعا کرا دی جائے گی۔

Topics


Khawateen Ke Masil

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضرت خواجہ الشیخ عظیمی صاحب کو لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے متعلق ہر ماہ تقریباً 15ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن کا جواب بلا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم “روحانی ڈاک” کے نام سے مرشد کریم نے 25سال سے زیادہ عرصہ لکھا اور یہ کتاب اسی روحانی ڈاک سے تیار کی گئی ہے۔ میرے مرشد کریم اس وقت 32سے زائد کتابوں اور 72سے زائد کتابچوں کے مصنف ہیں۔میرے مرشد کریم سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ اور 21بزرگان دین سے بطریق اویسیہ اور براہ راست آپ کو فیض منتقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب “میں اور میرا مرشد” میں پڑھیں گے۔میرے مرشد کریم فرماتے ہیں کہ جتنے مسائل و مشکلات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق عقیدہ کی کمزوری سے ہے اور عقیدہ کی کمزوری مادہ پرستی سے ہوتی ہے۔ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ آج کے دور میں مادیت انسان کی اتنی بڑی کمزوری بن گئی ہے کہ ہر انسان مادی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنی روح سے دور ہو گیا ہے۔ اور جیسے جیسے روح سے دوری واقع ہوئی اسی مناسبت سے انسان شک اور وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اب سے 70سال پہلے انسان کے اندر جو یقین تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ پہلے انسان جس سکون سے آشنا تھا۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ انسان نے جس قدر سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔ س