Topics

میں قبرستان میں ہوں

سوال: دس بارہ سال سخت محنت، بارہ سولہ گھنٹے روزانہ ہتھوڑی چلانا، نیند بھی پوری نصیب نہیں ہوتی تھی، تھکن کی وجہ سے چائے اور کافی کا اتنا استعمال کیا کہ ان کا اثر ہی بعد میں محسوس نہیں ہوتا تھا پھر بے خوابی کا مرض کئی سال رہا لیکن اب نہیں ہے۔ اپنے ہم جنسوں کے ساتھ عشق بھی فرمایا ہے، اس کی چوٹ بھی دماغ پر پڑتی تھی، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے دماغ جل کر بھسم ہو گیا، ڈھیروں تیل رگڑنا پڑنا، پھر معمولی تراوٹ آتی، بچپن سے بیس سال کی عمر تک احساس محرومی کے دہکتے ہوئے انگاروں پر کباب کی طرح جلتا رہا، پھوہڑ ماں باپ کی مہربانیوں کے سبب بچپن سے کافی عرصہ تک بری عادتوں کا شکار رہا ہوں لیکن اب کئی سال سے یہ سلسلہ ختم ہے۔ والدہ بہت سخت طبیعت کی تھیں، بات بے بات بری طرح پیٹتی تھیں۔ اس وقت میری عمر پانچ چھ سال رہی ہو گی۔ 

ہو سکتا ہے اس زمانے کا کوئی خوف ذہن میں بیٹھ گیا ہو۔ اس کے علاوہ بچپن میں ہم لوگ آسیب زدہ مکان میں بھی رہے ہیں۔ ہماری والدہ کی کئی اولادیں اس گھر میں مر گئی تھیں۔ ہو سکتا ہے کہ ذہنی طور پر نابالغ ہوں، نامرادی کا شکار الگ ہوں، یادداشت برائے نام رہ گئی ہے۔ لکھنا پڑھنا چھوٹ گیا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی گویا ختم ہو گئی ہے۔ ہر وقت ذہن دباؤ میں مبتلا رہتا ہے۔ اب آپ سے عرض ہے کہ کوئی مناسب مشورہ دیں۔ اپنے طور پر جو کوشش کر رہا ہوں اس سے جسمانی طور پر تو ٹھیک ہوتا جا رہا ہوں لیکن ذہن کا خوف نہیں نکال سکا ہوں۔ جیسا مناسب سمجھیں مشورہ دیں۔

جواب: آپ اللہ تعالیٰ کے حضور صدق دل سے دعا کر چکے ہیں۔ انشاء اللہ کمزوریاں خود بخود دور ہو جائیں گی۔ رات کو سوتے وقت کمرے میں بیٹھ کر مراقبہ کیا کریں۔ مراقبہ میں تصور کریں کہ ’’میں قبرستان میں ہوں اور کسی قبر پر بیٹھا فاتحہ پڑھ رہا ہوں۔‘‘

اس مراقبہ سے آدمی کے اندر سے خوف نکل جاتا ہے۔ تین وقت شہد کھائیں جس طرح بھی آپ کھانا پسند کریں۔ اس پر ایک بار اَلرَّضَاعَتْ عَمَا نَوِیْلُ پڑھ کر دم کر کے کھا لیا کریں۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، وضو اور بغیر وضو یا حی یا قیوم کا ورد کرتے رہیں۔ 


Topics


Roohani Daak (4)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔